کیا ریاست میری بھی ماں ہے؟


پانچ سال کاعرصہ مختصر نہیں ہوتا۔ جیل میں معظم پہ جو بیت رہی ہے وہ ایک الگ دردناک سچائی ہے دوسری طرف جوانی میں قدم رکھتے اس کے بچے اپنی زندگی کے خواب دیکھتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اس عمر میں تو محبتیں کی جاتی ہیں وہ نفرت کے بیج سینے میں دبائے بیٹھے ہیں۔ اس عمر میں مستقبل کے خواب دیکھے جاتے ہیں اور وہ تاریک اندھیری گلی میں دکھیلے جارہے ہیں۔ جوان ہوتی لڑکیوں کودیکھ کرماں باپ کتنے ارمان سجاتے ہیں اور ہم سہمے بیٹھے ہیں کون ہمارا در کھٹکھٹائے گا کیا کہوں گی میں ان سب لوگوں کہ ان کاباپ کہاں اور کیوں جیل میں ہے۔

دومعصوم بچیاں جوسمجھتی ہیں ان کے باپ دبئی میں ہیں کبھی جوپتاچلا کہ اس ریاست کے زیرعتاب ہیں تو کیا بیتے گی ان پر۔

میں دوراہے پہ کھڑی ہوں۔ بہت کرب میں مبتلا ہوں۔ رہی صحیح توانائی کے ساتھ اب دوراستے چلنا دوبھرہے میرے لئے۔ میری صحت ساتھ  چھوڑرہی ہے میں ہار رہی ہوں۔ میں کسی ایک کودوسرے پر فوقیت دیناچاہتی ہوں۔

میں نے آج تک طریقہ ملاقات کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اسی لئے کے میں ریاست سے ٹکرانے کاسوچ بھی نہی سکتی حالانکہ پانچ سالوں سے میں اور بچے شیشے کے آر پار ملتے ہیں، انٹر کام پہ بات کرتے ہیں۔

اب تو ہم معظم کا لمس بھی بھول چکے ہیں۔ یہاں ہم نے صبر کیا لیکن اب جو معاملات معاشی بدحالی کا شکار ہوتے جارہے ہیں وہاں میرے لئے ایک ایک قدم اٹھانا جیسے جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔

میں روز سوچتی ہوں دن رات سوچتی ہوں۔ کہ میری ضرورت کسے زیادہ ہے جوانی میں قدم رکھتے بچوں کو یاجیل میں قید پچاس سالہ اس شخص کو جس نے اپنی جوانی صحت دولت سب اپنی قوم کے لئے قربان کردیا۔

شاید ہمارے بچوں کو میری ضرورت زیادہ ہے میں ان کے لئے کماکرلاتی ہوں کبھی ایک جگہ تھوڑا سرمایہ لگا کرکبھی دوسری جگہ، نفع و نقصان کے ساتھ پانچ سالوں سے چل رہی ہوں۔ خواہشیں توعرصہ ہوئیں پوری نہیں کی ہاں ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

اللہ بھلاکرے اس مہنگائی کا میرے ہاتھ پاؤں کاٹ کے رکھ دیے ہیں۔ سر ڈھکتی ہو تو پیر ننگے ہوتے ہیں جو پیر ڈھکتی ہوں تو سر ننگا ہوتا ہے۔ صحت ساتھ چھوڑرہی ہے۔ کہاں کہاں سے اخراجات ختم کروں۔

کہاں کہاں سے اخراجات ختم کروں یہ سوچ کر آج ایک نتیجہ پہ پہنچی ہوں حالانکہ کہ یہ اقدام میرے اور میرے بچوں خود جیل میں اسیر معظم کے لئے بھی ایک اور ناقابل برداشت اذیت ہوگی لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

جیل جانا میرے لئے مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ میں دھوپ گرمی بارش اور سخت سردی میں بھی گئی۔ میرے لئے جو مشکل اب درپیش ہے وہ ہے معظم کے جیل کے اخراجات، مہینے کے چالیس ہزار نا چاہتے ہوئے بھی۔

ہر پندرہ دن بعد پندرہ سے بیس ہزار جیل کاخرچہ ہے۔ وہاں نا کھانا اس قابل ہے کہ کھایا جائے، کئی مرتبہ تو روٹیوں پہ بھنکتی مکھیاں میں نے خود دیکھی ہے جو اس انتظار میں رکھی ہوتی ہے کہ کب بٹیں۔ سالن پتلا پانی، چائے اپنی بنا کر پینا ہے۔

پانی کینٹین سے خرید کے پینا ہے، کوئی بھی ضرورت کی چیز کینٹین سے انتہائی گھٹیاکوالٹی کی خریدنا پڑتی ہے اور ان سب اخراجات کے لئے معظم کے پیسے جمع کرانا۔ یہ بیس ہزار بڑی رقم نہیں لگتے اگر میں لاکھوں کمارہی ہوتی، اگر بچے پڑھائی لکھائی چھوڑ کر محنت مزدوری کررہے ہوتے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے جواس کیس میں معظم اور باقی اسیروں کو جیل میں ڈال کے بھول گئے، انھیں کم از کم یہ تو دیکھنا چاہیے کہ آٹھ افراد کی فیملی اور ایک فرد جیل میں ہو تو ان کا ذرائع آمدن کیا ہے؟

میں کبھی پبلک میں آکر اپنے مالی مسائل بیان نہیں کروں گی، اس سے میری اور میرے بچو کی عزت نفس مجروح ہوگی۔ لہذا میں اپنے ان مسائل کے لئے ریاست پاکستان کی طرف دیکھوں گی۔

میں اس مملکت پاکستان کی ریاست کی ایک ادنی شہری ہوں میں اپنے شوہر کے جیل کے تمام معاملات و اخراجات کی ذمہ داری اس ملک کی ریاست کوسونپتی ہوں، اور امید کرتی ہوں کہ جس طرح ابھی نندن اور کلبھوشن کے لئے نرم گوشہ دکھایا گیا اپنے ملک کے ان اسیروں کے لئے بھی یقینا دکھائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).