فاروڈ بلاکس بنیں گے تو ہی اجلاس طلب ہو گا


منگل کی شام ڈھلتے ہی سینٹ کا اجلاس ختم ہوا تو کارپارک کی جانب بڑھتے ہوئے پارلیمانی راہداری میں ایک صاحب سے ملاقات ہوگئی۔موصوف سیاست دان نہیں ہیں۔قومی اسمبلی یا سینٹ کے رکن بھی نہیں۔1990کی دہائی سے مگر انہیں مختلف حکومتوں کی ’’مشاورت‘‘ فرماتے دیکھ رہا ہوں۔ گزشتہ چند برسوں سے وہ عمران خان صاحب کی بے پناہ عقیدت میں مبتلا ہیں۔مجھے دیکھتے ہی دعویٰ کیا کہ میری عمر بہت لمبی ہوگی کیونکہ چند ہی لمحے قبل وہ مجھ سے ملاقات کا ارادہ بنارہے تھے۔

سینٹ کا اجلاس ختم ہوتا ہے تو مجھے گھر پہنچ کر The Nation کے لئے پریس گیلری والا کالم لکھنے کی جلدی ہوتی ہے۔وہ مگر میرے ہمراہ چلتے رہے اور میری گاڑی کے قریب پہنچ کر تھوڑی دیر کے لئے ایک ’’اہم بات‘‘ کرنے کا وقت طلب کرلیا۔

میں ہمہ تن گوش ہوگیا تو انہوں نے بہت فکرمندی سے اس رائے کا اظہار کیا کہ چند ٹی وی ٹاک شوز میں گزشتہ چند دنوں سے ’’اچانک‘‘ عمران حکومت کے خلاف تندوتیز گفتگو ہونا شروع ہوگئی ہے۔ یہ گفتگو کسی ’’تبدیلی‘‘ کا ’’اشارہ‘‘ تو نہیں؟

انتہائی دیانت داری سے میں نے انہیں بتایا کہ میں ٹی وی صحافت سے وابستگی کے دوران بھی ٹی وی دیکھنے کا عادی نہیں تھا۔گزشتہ کئی ہفتوں سے اپنے کمرے میں نصب ٹی وی کو آن ہی نہیں کیا۔ صرف عمران خان صاحب کے قوم سے خطاب والے دن تھوڑی دیر کو ریموٹ دبایا تھا۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ ان دنوں ٹی وی ٹاک شوز عمران حکومت کے بارے میں کیا ماحول بنارہے ہیں۔

یہ اعتراف کرنے کے بعد میں نے بہت خلوص سے یہ بھی عرض کیا اگر ٹی وی پر عمران حکومت کے خلاف گفتگو کی گنجائش پیدا ہورہی ہے تو مہربانی فرماکر میرے لئے بھی کسی سکرین پر نمودار ہونے کی راہ نکالی جائے۔دل میں جمع ہوئی بھڑاس کی نکاسی کا بندوبست ہوجائے گا اور چند پیسے بھی مل جائیں گے۔

میری فریاد کو انہوں نے ’’پھکڑپن‘‘ ٹھہرایا۔ اصرار کیا کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود میں زندگی کے معاملات کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوپایا۔ اسلام آباد میں کئی برسوں سے مقیم حکومتی معاملات پر نگاہ رکھتے ہوئے مگر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں ’’حکومت کے خلاف‘‘ پکنے والی ’’کھچڑی‘‘ سے لاعلم ہوں۔ قسم اٹھانے کی مجھے عادت نہیں۔ اپنی لاعلمی کو دہراتے ہوئے رخصت کا طلب گار ہوا۔ وہ مگر مزید گفتگو کرنے کو مصررہے۔ مارے مروت کے میں کھڑارہا۔

بہت احترام سے ان کی گفتگو ختم ہونے کے بعد میں نے انہیں اطمینان دلانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ عمران حکومت کے لئے میری دانست میں ستے خیراں ہیں۔ اپنے دعویٰ کے اثبات میں انہیں منگل کے روز ہوئی سینٹ کی کارروائی یاددلانا پڑی۔

منگل کی سہ پہر تک یہ طے ہوچکا تھا کہ سینٹ کااجلاس 6 ستمبر تک جاری رکھا جائے گا۔حکومت نے مگر منگل ہی کے دن ایک نہیں چار آرڈیننس ایوان میں پیش کرتے ہوئے ایوانِ بالا کے طویل رخصت پرجانے کی ’’خبر‘‘ بھی سنادی۔ راجہ ظفر الحق،میاں رضا ربانی اور محترمہ شیری رحمن پارلیمانی روایات کے مطابق قانون سازی کے عمل کو نظرانداز کرتے ہوئے ’’صدارتی آرڈیننسوں‘‘ کے ذریعے حکومت چلانے کے رویے پر تندوتیز تقاریر فرماتے رہے۔حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے سراج الحق صاحب نے بھی ’’غیرجانبداری‘‘ بھلاکر حکومت پر سخت تنقید فرمائی۔ ان تمام اپوزیشن رہ نمائوں کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ آرڈیننسوں کے ذریعے جو قوانین مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کا حتمی مقصد فقط چند کاروباری لوگوں کو بے پناہ مالیاتی رعایتیں فراہم کرناہے۔

حیران کن بات یہ بھی رہی کہ سینٹ کے حالیہ اجلاس میں وہ آرڈیننس ایوان کے روبرو پیش ہی نہیں ہوا جس کے ذریعے کھادبنانے،بجلی پیدا کرنے اور ٹیکسٹائل سے متعلق چند کاروباری افراد کو 200 ارب روپے سے زیادہ رقم معاف کردی گئی ہے۔غالباََ حکومت کو یہ خدشہ تھا کہ اپنی بھاری اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن کی تمام جماعتیں باہم مل کر مذکورہ آرڈیننس کو نامنظور کردیں گی۔

حکومت کے ذہن میں موجود خدشات کی بنیاد غالباََ یہ حقیقت رہی ہوگی کہ سینٹ کا حالیہ اجلاس شروع ہونے کے پہلے ہی دن اپوزیشن نے اس آرڈیننس کو نامنظور کردیا جس کے ذریعے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC)کی تنظیم نو ہونا تھی۔

PMDCایک بہت تگڑا ادارہ ہے۔ یہ نجی سرمایہ کاروں کو طبی تعلیم پھیلانے کی اجازت دیتا ہے۔ان کے چلائے اداروں کی عطاکردہ ڈگریوں کو مستند ٹھہراتا ہے۔ نجی سرمایہ کاروں کی ’’فیاضی‘‘ سے وطن عزیز میں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیوں کے قیام کو فروغ دینے کے نام پر بنائے PMDC میں ہر حکومت ’’اپنے بندے‘‘ لگانے کو بے چین رہتی ہے۔ تحریک انصاف کو حکومت میں آئے ایک سال ہوگیا ہے۔اس کے حامیوں میں بھی یقینا بہت ہی ذہین افراد صحت عامہ سے جڑے مسائل کے بارے میں انتہائی فکر مند ہوں گے۔ ان کی ذہانت PMDC کو ہنگامی بنیادوں پر درکار رہی ہوگی۔ اس لئے مذکورہ ادارے کی تنظیم نو کے لئے عجلت میں ایک آرڈیننس کا اجراء ہوا۔ اپوزیشن نے مگر اسے رد کردیا۔ تحریک انصاف کے ذہین افراد کو PMDCمیں کھپانے کے لئے اب نئے آرڈیننس کی ضرورت ہوگی۔

عمران حکومت کے خلاف مبینہ طورپر ’’میڈیا میں پکتی کھچڑی‘‘ پرپریشان ہوئے مہرباں دوست کو میں نے یاددلایا کہ سینٹ کا اجلاس طویل عرصے تک مؤخرہونے سے قبل ایوان میں تحریک انصاف کے لگائے قائدِ ایوان جناب شبلی فراز نے بھی ایک تقریر فرمائی ہے۔

اس تقریر کے ذریعے احمد فراز کے ہونہار فرزند نے فکرمندی سے گلہ کیا کہ چند اپوزیشن رہ نمائوں کی کرپشن کے الزامات کے تحت ہوئی گرفتاریوں سے اپوزیشن ناراض ہوگئی ہے۔طیش میں آکرسینٹ سے وہ قوانین بھی منظور نہیں ہونے دے رہی جو خلقِ خدا کی بھلائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران حکومت لاگوکرنا چاہ رہی ہوتی ہے۔حکومت عوام کی خدمت لہذا ’’آرڈیننس‘‘ کی بدولت لاگو ہوئے قوانین کے ذریعے کرنے کو مجبور ہے۔

آرڈیننسوں کے خلاف شیری رحمن،رضاربانی،سراج الحق اور راجہ ظفر الحق کی جانب سے ہوئی تندوتیز تقاریر نے حکومتی سینیٹروں کو یقینا تھوڑاشرمندہ اور زیادہ پریشان کیا۔شبلی فراز کی تقریر نے مگر واضح انداز میں یہ عندیہ دے دیا کہ سینٹ میں خلقِ خدا کی بہتری اور سہولت کے لئے بنائے قوانین کی سرعت اور آسانی سے منظوری کے لئے حکومت کو ’’کچھ کرنا‘‘ ہوگا۔

سینٹ میں قانون سازی کے عمل میں سبک رفتاری لانے کے لئے ضروری ہے کہ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین قومی اسمبلی اور سینٹ کی ایک مؤثرتعداد ’’قوم کے وسیع ترمفاد‘‘ میں اب دریافت کرلے کہ ’’منفی سیاست‘‘ کا دورگزرچکا ہے۔اپوزیشن بنچوں پر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے اراکین کب تک نواز شریف کی ’’ضد‘‘ کے باندی رہیں؟۔ پیپلز پارٹی سے بھی چند ایسے افراد برآمد ہونے کی امید ہے جو خود کو آصف علی زرداری کے ’’فیک اکائونٹس‘‘ کا دفاع کرنے میں ندامت محسوس کررہے ہیں۔’’فارورڈبلاکس‘‘ کی کہانیاں شاید اسی باعث فروغ پارہی ہیں۔

مجھے ایک قابل اعتبار حکومتی ’’ذریعہ‘‘ نے بتایا ہے کہ قومی اسمبلی یا سینٹ کے آئندہ اجلاس مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں سے فارورڈ بلاکس کے نمودار ہونے کے بعد ہی بلائے جائیں گے۔

میں نے یہ ’’خبر‘‘ اس مہربان کے گوش گزار کردی جو میری کار کے قریب کھڑے تھے۔ میری بتائی ’’خبر‘‘ کی چندناموں کے استعمال کے بعد ’’تصدیق‘‘ کے باوجود وہ صاحب مطمئن دکھائی نہ دئیے۔ ’’میڈیا میں پکتی کھچڑی‘‘ کے بارے ہی میں پریشان رہے۔

بشکریہ رونامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).