یہ بھی کولیٹرل ڈیمیج ہے!


سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد قوم کو ایک نئی انگلش ترکیب سے شناسائی ہوئی ہے۔ کولیٹرل ڈیمیج! دُشمن سے جنگ کرتے ہُوئے جب اپنا نُقصان کرنا پر جائے یا ہو جائے تو یہ کولیٹرل ڈیمیج ہے۔

سانحہ ساہیوال کے حوالے سے ایک پولیس افسر سے گفتگو کا موقع مِلا۔ وہ تبدیلی کے حد درجہ شوقین ہیں۔ سانحہ ساہیوال نے ہر شہری کو اشکبار کر دیا تھا۔ ان صاحب نے کہا کہ دیکھ لیجئیے محکمے نے ایکشن لے لیا ہے۔ رائے طاہر عُہدہ سے اُتار دیا گیا ہے۔ شُوٹرز پہ مُقدمہ دائر ہو گیا ہے۔ میں نظریہ تشکیک کے تحت اُن سے سوال کررہا تھا کہ دیکھ لیجئیے گا پہلی والا کام نا ہو۔

نوٹس لے لیا ہے، مقدمہ درج کر دیا ہے۔ اور مقدمہ کی فائل فائلوں کے بوجھ تھلے دم گھُٹ کر مر گئی اور کچھ عرصہ بعد صُلح ہو گئی!

وہ بولے نہ کاکا نہ، اب پہلے والا دور لد گیا۔ انصاف ہوتا نظر آئے گا آپ کو۔ یہ کوئی نُونی، پی پی دور تھوڑی ہے۔

چند دن پہلے دوبارہ بیٹھک ہُوئی۔ میں نے کہا جی سُنائیے کیا بنا سانحہ ساہیوال کا۔ کارروائی کدھر تک پہنچی۔ کھسیانے سے ہو کر بولے بھائی جان کُچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ کولیٹرل ڈیمیج ہے۔

اللہ ری بے بسی۔ واہ رے تیری سادگی۔ کولیٹرل ڈیمیج!

آج کل صلاح الدین قتل خبروں میں ہے۔ وہی صلاح الدین جِس کا جُرم یہ تھا کہ بینک کی اے ٹی ایم مشینوں اور کیمروں کو منہ چڑاتا تھا۔ پکڑا گیا۔ اتنا ہوشیار مُجرم تھا کہ منہ پہ کوئی نقاب کِیے بغیر چوری کرتا تھا۔ اور اتنا بے باک کہ تھانے میں بیٹھ کر پولیس افسران سے پُوچھ رہا ہے کہ

”تُسی مارنا کتھوں سِکھیا اے“
حدِ ادب گُستاخ!

عوام کہہ رہے ہیں کہ یہی سوال اُس کی جان لے گیا۔ لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ آپ اے ٹی ایم پہ حملہ نہ کریں بلکہ پی ٹی وی پہ کریں تاکہ اعلٰی عُہدہ پا سکیں۔ قصہ مختصر جتنے مُنہ اتنی باتیں۔

اب دوبار ڈائریکٹرز نے پُرانی کیسٹ چلا دی ہے۔ نوٹس لے لِیا ہے۔ مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ بندے سسپنڈ ہو گئے ہیں۔ کُچھ عرصہ انتظار کیجئیے۔ یہ بھی ایک کولیٹرل ڈیمیج بن جائے گا۔ ہر ذی شعُور ڈرا اور سہما ہُوا ہے۔ کہ اُس کا مُستقبل کیا ہے؟ کل کِسی شک کہ بُنیاد پہ کوئی جری شیر جوان پولیس افسر اُسے یا اُس کے بھائیوں یا بچوں کو اُٹھا کر لے جائے اور تھری ڈگری فارمولا لگا کر کولیِٹرل ڈیمیج کی بلی چڑھا دے تو اُس کی جان کا بھاؤ کتنے روپے کِلو لگا۔

ایک واقعہ ہو جائے ہم عوام طیش میں آجاتے ہیں۔ غیض و غضب کی آگ میں جلتے ہیں۔ نعرے بازی کرتے ہیں۔ راستے بلاک کرتے ہیں۔ داؤ لگے تو عوامی املاک کو آگ بھی لگا دیتے ہیں۔ گویا ہم عوام، عوام کو ہی نشانہ سِتم بناتے ہیں۔ قہر درویش، برجانِ درویش! اداروں پہ ان چیزوں کا کیا بوجھ؟

وہ اِسے معمُول کی کارروائی سمجھتے ہیں۔ وڈیو وائرل ہو چُکی ہے سوشل میڈیا پہ، جِس میں مقتُول پہ تشدُد ہوتا صاف دیکھا جا سکتا ہے مگر افسرانِ عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونک رہے ہیں کہ تشدُد ہُوا ہی نہیں۔ محکمہ پولیس اپنے بیمار اعضاء کی تشخیص نہیں کرے گا اور میں نہ مانوں کی پالیسی پہ ڈٹا رہے گا تو اصلاحِ ادارہ ایک خواب ہی رہے گا۔

پولیس میں ایک سے بڑھ کر ایک قابل، ایماندار افسر موجُود ہے۔ جو جدید اور جاندار طریقہ ہائے تفتیش سے گُنجلک معاملات کو سُلجھاتے ہیں۔ کتنے ہی افسر اور سپاہی پیشہ ورانہ ذمہ دارانہ نبھاتے خالصتاً عوام کہ جان و مال کہ حفاظت کے لیے جان سے گئے۔

اس طرح کا ایک واقعہ پولیس کی سارا قُربانیوں پہ پانی پھیر دیتا ہے اور پولیس کے سارے چہرے پہ کالک مل دیتا ہے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی بدنامی اور سیاہ بختی میں وہ افسران سرِ فہرست ہیں جو ننگِ محکمہ عناصر کی بیخ کُنی کی بجائے پُشت پناہی کرتے ہیں۔ ایسے عناصر محکمے کے بیمار عناصر ہیں جن سے چھُٹکارا از بس ضرُوری ہے ورنہ وہ نئی بھرتی شُدہ اعلٰی تعلیم یافتہ کھیپ کو بھی برباد کر کے رکھ دیں گے۔ محکمہ پولیس کے وقار، اور بقا کی خاطر ایسے لوگوں کی محکمانہ انکوائری کرکے اُنہیں گولڈن ہینڈ شیک دے کر الوداع کردینا ایک مستحسن قدم ہو گا۔ اور اس کے علاوہ پولیس کے ٹریننگ سنٹرز پہ رائج روائتی سلیبس سے ہٹ کر جدید طریقہ ہائے تفتیش شامل کرنا وقت کی اولین ضَرُورت ہے۔ ورنہ نجانے اور کتنے صلاح الدین کولیٹرل ڈیمج کی کالی دیوی کے قدموں پہ مُفت میں قُربان ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).