روسو کا معاہدہ عمرانی


جب فرانس میں مذہبی جنگ کا آغاز ہوا تو ژاں ژاک روسو کا خاندان وہاں سے جنیوا میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گیا اور کوئی ایک صدی بعد 28 ؍جون 1712 ء کو روسو نے اس خاندان میں جنم لیا۔ اس کی والدہ اسے جنم دیتے ہی فوت ہو گئی۔ اس کا باپ بھی گھڑی ساز تھا جس نے روسو کو خود تعلیم دینا شروع کر دی اور جب وہ دس برس کا ہوا تو اس کے باپ کو ایک جھگڑے کی وجہ سے جنیوا چھوڑنا پڑالہٰذا اس نے روسو کو چچا کے پاس چھوڑا تاکہ وہ تعلیم جاری رکھ سکے اور خود ہجرت کر گیا۔

1754 ء تک وہ کٹر کیتھولک عیسائی رہا ’اس نے انہی دنوں اسی خاتون سے شادی کر لی جس سے بھی وہ مذہبی تعلیم پانے گیا تھا۔ اگلے نو برس ا س نے کئی پیشے بدلے اور بالاخر خود کو پادری کے علاوہ کسی کام کے قابل نہ ثابت کر سکا۔ اسی دورا ن اسی موسیقی سے بھی لگاؤ ہو گیا۔ والٹیئر کے فلسفیانہ خطوط اس کا واحد مطالعہ تھے جن کے ذریعے وہ ریاضی‘ فلکیات ’تشریح الاعضا کے سائنس دانوں اور سترہویں صدی کے شاعروں اور مؤرخوں کو پڑھنے میں کامیاب ہوا۔

1741 ء میں وہ پیرس روانہ ہوا جہاں اس نے ایک سائنس اکیڈمی میں اس نے موسیقی پر انتہائی گرا قدر تحریریں بھی پیش کیں جو بہت سراہی گئیں۔ یہاں سے اس کے لکھنے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو بعد ازاں اس کی معرکۃالآراء کتاب ”معاہدہ عمرانی“ تک پہنچا اور بعد میں اس نے اپنی ساری جدوجہد کو اپنی کتاب ”اعترافات“ میں خود بیان کیا۔

روسو کی کتاب ”معاہدہ عمرانی“ اگرچہ اس کی زندگی میں اس کے لیے بدنامی اور بدقسمتی کا باعث بنی رہی لیکن بہت جلد اسے سیاسی تاریخ میں ایک اہم کتاب سمجھا جانے لگا اور اس کے نظریات کو کسی حد تک تسلیم کیا جانے لگا۔ علمِ سیاست میں آج بھی روسو کے نظریات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ روسو کی تمام تصانیف میں ایک بنیادی خیال ضرور ملتا ہے کہ فطرت اور تمدن کا تضاد۔ یہ وہ تضاد ہے جس کا خود روسو کی زندگی میں بہت بنیادی کردار رہا۔

کیونکہ جن حالات میں روسو نے اپنی زندگی گزاری اور جس عروج و زوال سے وہ گزرا ’اس سے روسو کی زندگی پر گہرا اثر پڑا۔ روسو کا فلسفہ شروع میں متمدن انسان سے نہیں فطری انسان سے بحث کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ہمیں سب سے پہلے انسان کی فطرت پہ بات کرنی چاہیے کیونکہ کوئی بھی قانون اسی صورت میں ترتیب دیا جا سکتا ہے جب انسان کا فطرت سے تعارف ہو۔ روسو کا فطری انسان دراصل اس کی اپنی ذات ہے۔ وہ اپنی اندرونی آواز یعنی اپنے ضمیر کو اپنا رہ نما بناتا ہے اور نیک و بد کی تمیز اس کے ذریعے کرتا ہے۔

اس تناظر میں اس کی کتاب ”معاہدہ عمرانی“ پیش کی جاتی ہے۔ اس کتاب میں روسو تمام سیاسی اداروں اور ملکی قوانین سے قطع نظر کر کے روسو نفس قانون سے بحث کرتا ہے۔ اس میں وہ سوال کرتا ہے کہ کون سے قوانین ہیں جو خود انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ اس کے جواب میں وہ پہلے ایک ایسے معاشرے اور ریاست کا تخیل پیش کرتا ہے جس کی بنیاد قانونِ فطرت پر ہو۔ ایسی ریاست جس میں آزادی اور مساوات کا دور دورہ ہو اور سیاسی نظام کسی قانون کا پابند نہیں۔ روسو کا کہنا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ انسانی فطری طور پر آزاد پیدا ہوا ہے لیکن پھر بھی پابہ زنجیر ہے۔ اس کا خیال ہے کہ انسانی حکومت کے لیے سب سے بنیادی شرط انسان کی آزادی ہونی چاہیے جس میں نہ صرف وہ کھل کے سانس لے سکے بلکہ اپنی آزادانہ زندگی گزار سکے۔

جب سولھویں صدی میں عیسائیت کی تاریخ میں وہ انقلاب رونما ہوا جسے ریفرمیشن کے نام سے پکارا جاتا ہے تو ”معاہدہ عمرانی“ کے نظریے کو بھی فلسفہ سیاست میں اہمیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ انگلستان میں رچرڈ ہوکر نے ”معاہدہ وعمرانی“ کو ریاست کی بنیادی قرار دیا۔ اسی طرح جرمنی میں التھوسیس اور ہالینڈ میں گروسیس اس خیال کے پیش رو ہیں۔ انگریزی حکما ہابس اور لاکس کے بعد سے اس نظریے کو فلسفہ میں خاص اہمیت حاصل ہوئی۔ روسو کے ذہن میں ”معاہدہ عمرانی“ کا جو تخیل ہے اس کے مطابق ”ہم میں سے ہر ایک کے مشترکہ طور پر اپنی ذات اور اپنی قوتوں (صلاحیتوں ) کو ارادہ اجتماعی کے حوالے کرتا ہے اور اس کے عوض میں ہم سے ہر فرد“ کل ”کا جز لاینفک بن جاتا ہے“۔

روسو کے ”ارادہ اجتماعی“ بنیادی طور پر اجتماعی ضمیر کا دوسرا نام ہے اور اس کا خیال ہے کہ جماعت اس وقت آزاد ہے جب وہ اپنے ضمیر کی آواز کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہے۔ اجتماعی جماعت کے اردوں کا مطلب یہ پیش کرتا ہے کہ تمام قوم کی رائے اور ایک آواز ہونی چاہیے۔ کسی بھی معاملے میں جب وہ یک زبان ہو جائیں تو ریاست میں برابری پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

روسو سیاسی فرقوں اور مذہبی جماعتوں کو ریاست کے لیے بڑے خطرے کا باعث سمجھتا ہے اور اس کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ گو ہر سیاسی فرقے کا ایک اجتماعی ارادہ ہوتا مگر پوری جماعت کے مقابلے میں اس ”اجتماعی ارادہ“ کی حیثیت محض انفرادی ارادے کی ہوتی ہے۔ سیاسی فرقوں کی وجہ سے سچا اجتماعی ارادہ مشکل سے پہچانا جاتا ہے کیونکہ ان کا مفاد نہ اجتماعی ہوتا ہے اور نہ انفرادی بلکہ روسو اسے ایک بیچ کی چیز سمجھتا ہے۔ روسو نے دستور اساسی کے جو اصول مقرر کیے ہیں ان میں اقتدارِ اعلیٰ اور حکومت (قوت عاملہ) کا فرق خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اقتدارِ اعلیٰ کی مالک پوری جماعت ہے۔ برخلاف اس کے حاکم یا سلطان یا عامل وہ فرد ’یا افراد کا مجموعہ ہے جسے پوری جماعت کی طرف سے یہ خدمت تفویض ہوئی کہ وہ ارادہ اجتماعی کو جس کا اظہار قانون کی شکل میں ہوتا ہے۔

روسو جمہوری حکومت کو دوسری قسم کی حکومتوں پر ترجیح دیتا ہے۔ مگر وہ ریاست کی ظاہری شکل و صورت پر بہت زور نہیں دینا چاہتا اور نہ حکومت کا کوئی ایسا تخیل پیش کرنا چاہتا ہے جسے ہر جگہ اور ہر زمانے کے لیے بہترین کہا جا سکے۔ پھر روسو کا جمہوری حکومت کا تخیل بہت وسیع ہے۔ اس کے خیال میں ہر وہ حکومت جو قانوناًجائز ہو ’جمہوری حکومت ہے۔ جمہوریت لازمی طور پر اشرافیہ یا حکومت عوام کا نام نہیں۔ جمہوری اصول کا ہراس ریاست میں دوردورہ ہے جہاں ارادہ اجتماعی یعنی قانون کے ذریعے حکومت ہوتی ہے اور اس صورت میں شاہیہ بھی بعض اوقات جمہوریت کے مترادف ہو سکتی ہے۔ (جاری ہے )

(استادِ مکرم ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا شکریہ کہ انھوں نے روسو کی اہم ترین کتاب ”معاہدہ عمرانی“ پڑھنے کے لیے دی اور کالم لکھنے کی تاکید فرمائی)

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).