نظام کو زبان


اک گل پچھاں! تسی مارو گیے تے نہیں؟ تسی مارنا کتھوں سکھیا؟

نظر بظاہر یہ دو جملے ایک ایسے انسان کے تھے جو دماغی طور پر تو نارمل نظر نہیں تھا آتا مگر جاتے جاتے وہ 22 کروڑ عام عوام کی ترجمانی کر گیا۔ صلاح الدین نے بینک کی اے ٹی ایم مشین کو زبان کیا دکھائی ہمارے قانون کے رکھوالوں کو طیش آ گیی کہ جیسے وہ اس مشین کو نہیں بلکہ اس گلے سڑے نظام کو دکھا رہا ہے۔ اس لیے اسے سزا کے طور پر بار بار زبان نکلوا کر اپنی کھسیانی حالت کی تسکین کی گئی کہ یہ لوٹ مار تو ہمارا طرہ امتیاز ہے تم کیسے اس پر حق جتانے لگ گیے وہ بھی اس ”خصوصی“ حالت میں۔

پھر بھی صاحب بہادر کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور صلاح الدین کو اس کے کارنامے کی اتنی کڑی سزا دی گیی کہ وہ اس دنیا کو ہی چھوڑ کر چلا گیا اور جاتے جاتے اپنے مہربانوں کے لیے سوال چھوڑ گیا کہ ذہنی حالت میری خراب تھی یا تمھاری جو سائیں کہلاتے شخص کو پہچان نہیں سکے اور اس سے اپنی جلاد صفت تفتیش کرتے رہے؟ ذہنی حالت میری خراب تھی یا تمھاری جو تم پر میری معصوم دعاوں کا اثر نہیں ہوا اور تم مجھے پر اپنا غصہ اتارتے رہے اور میں بے بسی سے دہائیاں دیتا رہا کہ مجھے چھوڑ دو، مجھے مت مارو؟

صلاح الدین پہلا شخص نہیں جو پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تفتیش کا مشق ستم بنا۔ ہم روزانہ کوئی نہ ایسے دل دہلا دینا والے ماورائے عدالت قتل کی داستان سنتے ہیں۔ غصہ کرتے ہیں اور کچھ دن بعد بھول جاتے ہیں۔ کیا یہ مشق ایسے ہی چلتی رہے گی اور ہم ایسے اندوناک واقعات پر تھوڑا سا واویلا کر کے چپ ہوتے رہے گے؟ تو جواب ہے جی ہاں! ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ ہم ذہنی طور پر غلام قوم کے باشندے ہیں۔ ہم اپنے حاکموں سے ذہنی طور پر دبتے ہیں اور وہ ہمیں اس بربریت کا شکار کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ نہ ہم نے اس نظام کو بدلنا ہے اور نہ بدل سکتے ہیں۔ روز کوئی نہ کوئی صلاح الدین اس ظلم کا شکار ہوتا رہے گا اور اس نظام کو زبان دکھاتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).