اگنازیو سلونے : فونطامارا (ناول)۔


فسطائیت کے خلاف اگر ہم فکشن کی طرف آئیں تو فونطامارا ؔکو ایک اہم ناول پاتے ہیں کہ جس کا ذکر بہت ضروری ہے۔ لبرل ازم، مارکسزم اور انارکزم کی تحریکیں کسی نہ کسی طور پہلی جنگ عظیم کے وقت موجود تھیں لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران اٹلی میں ان تحاریک کے بالکل خلاف ایک نئی تحریک فاشزم کا آغازہوا۔ فاشزم ایک ایسا استبدادی طرز حکومت ہے جس میں حکومت کے پاس بے پناہ طاقت ہوتی ہے جب کہ عوام کے پاس سیاسی آزادیاں نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہیں۔

پہلی جنگ عظیم ( 1914 ء تا 1918 ء ) کے نتیجے میں جنگ کے طریقہ کار، معاشرے اور ریاست کے ساتھ ٹیکنالوجی میں نمایاں تبدیلیاں فاشزم کو تقویت دینے کا باعث بنیں۔ فاشٹ ان تبدیلیوں کو انقلاب سمجھ رہے تھے جس کے نتیجے میں 1926 ء کے آغاز میں اٹلی میں مسولینی اپنی جابرانہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ (اس سے پہلے 1917 ء میں روس میں انقلاب آ چکا تھا۔ جس میں زار روس کی مطلق العنان حکومت ختم ہوئی اور سوویٹ رشیا کا احیاء ہوا۔ یہ سوشلسٹ انقلاب تھا جس کا داعی لینن تھا۔ )

ابھی فسطائیت کی ہولناکیوں کے چرچے عام ہونا ہی شروع ہوئے تھے کہ اگنازیو سلونے ؔجو پادری بننا چاہتا تھا لیکن جبر کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسان تحریک میں شامل ہو کر فسطائیت کے خلاف مزاحمت کار بن گیا۔ جب تشدد بہت زیادہ بڑھا تو اگنازیو نے اٹلی کو خیر باد کہا اور سوئٹزرلینڈ چلا آیا اسی دوران جرمنی بھی نازی پارٹی کے سربراہ اڈولف ہٹلر کی گرفت میں چلا گیا۔ رد عمل کے طور پر ’فاشسٹ دشمن تحریکوں‘ نے بھی جنم لینا شروع کر دیا تھایہی وہ حالات تھے جس کے نتیجے میں فونطامارا کا ظہور ہوا۔

فونطامارا ؔ 1930 ء کی دہائی کے آخری دنوں میں اٹلی کی صورت حال کی عکاسی کرتا اگنازیو سلونے ؔ کا ناول ہے جو 1934 ء میں شائع ہوا۔ اس ناول نے نا صرف یورپ سے اٹھنے والی فاشزم دشمن تحریکوں کو مہمیز دی بلکہ ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے بسنے والوں کی سامراج دشمن تحریکوں کو بھی سہارا دیا۔ فونطامارا مذاحمت کا استعارہ ہے یہی وجہ تھی کہ فونطامارا کے تراجم دھڑا دھڑ دوسری زبانوں میں منظر عام پر آنا شروع ہو گئے۔ یہ اس صدی کی چوتھی یا پانچویں دہائی کے ابتدائی سال تھے جب فونطامارا کا ترجمہ لاہور میں شائع ہوا۔ فونطامارا نے فاشسٹ پارٹی اور اس کے پیروکاروں کی دھوکہ دہیوں اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کو اٹلی کے باہر اشکار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

جنگ عظیم کے بعد کے مضمحل اٹلی اور جرمنی کی غیر مطمعن عوام کو اپنے اردگرد جمع کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ ہٹلر اور مسولینی نے عوام کی مشکلات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ عوام سے کہا گیا کہ ان کے سب سے بڑے دشمن یہودی، بولشویک، سرمایہ دار اور سوشلسٹ ہیں اور عوام کو بدنما ماضی سے بہت بہتر مستقبل دینے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے اپنے پیروؤں کو تلقین کی کہ طاقت ہی ان کے مسائل کا حل ہے لہذا انہوں نے اپنے ساتھیوں کو تشدد کا سبب دیا جو کہ فاشزم کا بنیادی ہتھیار ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ ہم آج بھی کسی نہ کسی طور ایک طرح کی نہ صحیح کسی دوسری طرح کی فسطائیت کا شکار ہیں اس حوالے سے یہ ناول اور بھی زیادہ اہمیت اختیار حاصل کر لیتا ہے کہ جس کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ فاشسٹ اپنی طاقت اور پوری توانائی اور مقبولیت عوام کی شکایات اور ان کی نفرت سے حاصل کرتا ہے۔ فاشزم ان بے کار اور بے روز گار نوجوانوں سے ان عناصر سے انتقام لینے کا وعدہ کرتا ہے کہ جن کی وجہ سے ان لوگوں کو بے روزگاری اور بے کاری کی چکی میں پسنا پڑتا ہے۔

فسلطائی لیڈر اور ان کے مالی حوالی عوام کی شکایات اور ان سے پیدا شدہ نتائج کی بیخ کنی کا وعدہ کرتے ہیں۔ انہیں خوب سبز باغ دکھاتے ہیں اور بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں ایسے وعدے کہ ایک عالم پر عیاں ہوتا ہے کہ ان وعدوں کی تکمیل ناممکن ہے لیکن اس کے باوجود فسطائی تحریکیں خوب پھلتی پھولتی ہیں کہ نوجوان کسی دوسرے کی سننے کو تیار نہیں ہوتے اور اس طرح کنزرویٹوز کو ایک گالی بنا دیا جاتا ہے۔ کیا ہمارے ہاں بھی ایسا ہی نہیں ہو رہا؟
اگنازیو 1900 ء میں اٹلی میں پیدا ہوا تھا تاہم اگنازیو سلونے ؔتا دم مرگ 1978 ء تک جنیوا سوئٹرزرلینڈ میں رہا وہ کبھی واپس اٹلی نہیں گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).