عابد علی کی چند یادیں چند باتیں


کوئی سنہری دُپہر تھی، اسٹیفن روڈ کے گیٹ سے داخل ہوتے راول پنڈی ریل ویز اسٹیشن کے پلیٹ فارم پرچڑھتے میں نے ایک طلسماتی منظر دیکھا۔ غالباً تب میں تیسری یا چوتھی جماعت میں تھا۔ پلیٹ فارم پر ادھر اُدھر رکھے بڑے فریم کی طرز کے تختے، ان پر منڈھی سگرٹ کی ڈبیا میں موجود پنی جیسی جھلمل کرتے ورق (بعد میں معلوم ہوا، انھیں ریفلیکٹر کہا جاتا ہے ) ۔ ایک طرف لکڑی کے اسٹینڈ (ٹرائی پاڈ) پر دھرا کیمرا، اور پلیٹ فارم پر متحرک چند لوگ۔ گلے میں مفلر ڈالے، ایک کھویا کھویا سا نوجوان، پلیٹ فارم کے ایک بنچ پر بیٹھا، فرش پر نظریں گاڑے ہوئے ہے۔

چند روز بعد پی ٹی وی چک لالہ سے نشر ہونے والے ڈرامے (شاید، ”گھروندے“ ) میں اس نوجوان کو دیکھا، تو کسی بڑے نے اس کا نام عابد علی بتایا۔ پنڈی سے نسبت ہونے کی وجہ سے میں عابد علی کو ہمیشہ راول پنڈی ہی کا مانتا آیا ہوں۔ گر چہ ان کی پیدایش کوئٹہ کی اور ان کا فنی سفر کا زیادہ تر وقت لاہور اور کراچی میں گزرا۔

عابد علی سے میرا دو چار بار ہی سامنا ہوا تھا۔ پہلی بار آج سے بیس بائیس برس پہلے، پی ٹی وی ورلڈ اسلام آباد کی راہ داری میں سے گزرتے سرسری سلام دعا ہوئی۔ 2014 ء، میری ایک ٹی وی سیریز ”خواب تعبیر“ میں انھوں نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ سیریل میں غیر معروف اداکاروں کے بیچ میں، جاوید شیخ، فرح شاہ، اور عابد علی ہی نمایاں نام تھے۔ جب انھیں اس کردار میں کاسٹ کر لیا گیا، تو مجھے اس کردار کے جملوں پر بہت توجہ دینا پڑی تھی، کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ پائیں، مکالمے یا مکالموں کی بنت کم زور ہے۔

”خواب تعبیر“ میں ان کا کردار ایک ایسے بوڑھے کا تھا، جسے ایک نوجوان لڑکی اپنی ماں کی ضد میں آ کے، شادی کی پیش کش کر دیتی ہے اور وہ یہ پیش کش قبول کر لیتے ہیں۔ شادی کے بعد لڑکی کا محبوب لوٹ آتا ہے، تو ڈرامائی صورت احوال پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر بالکل ویسا ہی کردار انھوں نے ہم ٹی وی کی سیریل ”بنٹی، آئی لو یو“ میں بھی ادا کیا۔ میری خوش قسمتی یہ رہی کہ سیریل ”بنٹی آئی لو یو“ بعد میں ریلیز ہوا، ورنہ ”خواب تعبیر“ کو اس کا چربہ کہا جاتا۔

خیابان بخاری کراچی میں ان کا گھر ڈراموں کی رکارڈنگز کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا، تیسری ملاقات چار پانچ برس پہلے وہاں ہوئی جب میں لوکیشن کی ریکی کرنے گیا تھا۔

بہت پہلے میں نے اداکار نعیم طاہر سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”میں نے اپنے بچپن میں آپ کا فلاں ڈراما دیکھا تھا“۔ انھوں نے روکھے لہجے میں جواب دیا، ”آپ کے والد نے بھی اپنے بچپن میں میرے ڈرامے دیکھ رکھے ہوں گے“۔ خلافِ عادت میں خاموش رہا، کہ بڑے ہیں، چلو خیر ہے۔ اس سے مجھے سبق یہ ملا کہ کسی اداکار سے ایسی کوئی بات مت کہو، جسے سن کر اسے اپنی ڈھلتی عمر کا خیال آئے۔

نعیم طاہر والے ”سانحے“ کے دس بارہ سال بعد، ایک پروڈکشن ہاؤس کے اڈیٹنگ رُوم میں عابد علی سے میری دوسری ملاقات ہوئی۔ صحیح معنوں میں اسی کو پہلی ملاقات کہا جانا چاہیے۔ آن کی آن میں راول پنڈی ریل ویز اسٹیشن کا وہ پلیٹ فارم، جو موجودہ ایس پی آفس کے سامنے پڑتا ہے، میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ میرا اسکول آدم جی روڈ پہ، سیکرٹریٹ نمبر 2 کی بغلی گلی میں تھا۔ وہاں سے ہم ریل ویز کالونی تک پیدل مارچ کرتے، گھر کو جاتے تھے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ لاہور سے پنڈی آنے والی ریل کار، جسے صفائی کے لیے واشنگ لائن جانا ہوتا تھا، ہم اس پر سوار ہو جاتے۔ یوں پٹریوں کے بیچ کا سفر کٹ جاتا، ورنہ کندھے سے بستہ لٹکائے، گھر کی اور جاتے، فولاد کی پٹری پر یوں چلنے کی مشق کرتے، جیسے بازی گر تنے ہوئے رسے پر چلتا ہو۔

جس پروڈکشن ہاؤس میں، میں کانٹینٹ ہیڈ تھا، عابد علی اس کے لیے ایک ٹی وی سیریل ڈائریکٹ کرنے والے تھے۔ میں نے عقیدت کا اظہار کرتے، عابد علی کو راول پنڈی ریل ویز اسٹیشن کے اس پلیٹ فارم کا منظر یاد دلایا، جہاں رِکارڈنگز ہور ہی تھی۔ ”جب میں بچہ تھا۔ اس روز میں اسکول سے گھر جا رہا تھا، کہ پلیٹ فارم پر آپ کو“۔ ۔ انھوں نے میری بات کو سنا ان سنا کر دیا۔ مجے فورا نعیم طاہر کا روکھا پن یاد آیا، تو بات بدل دینے میں بھلائی جانی۔

اسکرپٹ جسے عابد علی ڈائریکٹ کرنے والے تھے، اس پر میرے کچھ تحفظات تھے۔ ایک تو یہ کہ اسکرپٹ ایک بھارتی فلم کا چربہ تھا، اور بھارتی فلم بھی وہ، جو ایک انگریزی فلم کا چربہ تھی۔ عابد علی کو جب میں نے یہی کہا، تو وہ ہنس پڑے، اور مصنفہ کا نام لے کر کہنے لگے، ان کا نام سن کے مجھے پہلے ہی شبہ تھا، ہو نہ ہو، انھوں نے یہ خیال کہیں سے چرایا ہو گا۔

عابد علی اب نہیں رہے۔ جب جب ان کا ذکر ہو گا، مجھے اسٹیفن روڈ والی اینٹرینس سے ریل ویز اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر داخل ہوتے، اپنے کردار میں کھویا، وہ نوجوان، وہ دن یاد آئے گا، وہ منظر جو میری لیے کسی جادو نگری کے منظر سے کم نہیں تھا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran