استادو، سب نالائق بچوں کو مار ڈالو


لاہور کے علاقے گلشن راوی کے امیرکن لائسٹف سکول میں ایک استاد نے دسویں کلاس کے بچے حنین بلال کو سبق نا یاد کرنے پر اس کا سر دیوار سے ٹکرا کر اسے مار ڈالا۔ بظاہر یہ نہایت ظلم کی بات لگتی ہے۔ عینی شاہدین بچوں کے بیانات کو سنیں تو لگتا ہے کہ استاد نے بہت ظلم کیا۔ لیکن استاد ظلم کہاں کرتے ہیں۔ وہ تو یہ سب کچھ بچوں کی بھلائی کے لئے کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت بھی اس کارِ خیر کو روکنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کرتی۔ اس قتل میں بھی مقتول کی بھلائی ہو گی۔ عینی شاہد طالب علم کے بیان کی روشنی میں صورت حال کچھ یوں بنتی ہے۔

کامران نامی ان نہایت ہی رحم دل استاد کو نالائق بچے حنین بلال پر بہت غصہ تھا اور نویں جماعت سے اسے صحیح نہیں پڑھا رہے تھے۔ اسے کلاس سے باہر نکال دیتے تھے اور پڑھاتے نہیں تھے۔ اب وہ نو دن ہوئے اس برانچ میں دسویں جماعت میں آیا۔ اس کی خوش قسمتی کہ اسے وہی نیک دل استاد کامران یہاں بھی مل گیا۔ استاد نے پوچھا بک کہاں ہے تو بچے نے کہا کہ کتاب نہیں مل رہی۔ بھلا یہ ماننے والی بات ہے؟ خاص طور پر نجی سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین جانتے ہیں کہ سارا بازار کتابوں سے بھرا پڑا ہے اور انہیں نصاب کی کتابیں خریدنے میں اتنا مزا آتا ہے کہ ایک ایک کتاب خریدنے بازار کے دس دس چکر لگاتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ استاد کامران بھی یہ بات جانتا تھا۔ بہرحال اس نے چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے بچے کو کہا کہ تم کسی دوست سے کتاب لے کر دس منٹ میں سبق یاد کرو۔ اب آپ خود نوٹ کریں کہ ایک پورا سبق یاد کرنے کے لئے دس منٹ کتنا زیادہ وقت ہے۔ دریا دل استاد نے پھر بھی اتنا زیادہ وقت دے دیا۔

دس منٹ بعد سبق سنا تو بچے کو یاد نہیں ہوا تھا۔ استاد سمجھ گیا کہ بچے کے سر کا مسئلہ ہے۔ اس لئے پہلے تو بچے کو لاتیں گھونسے مار کر اس کے جسم میں ایڈرینالین ہارمون کی فراہمی کو یقینی بنایا جو خوف اور ہیجان کی حالت میں خارج ہوتا ہے اور دل اتنا تیز دھڑکتا ہے کہ پورے جسم میں خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے۔ جسم کو آکسیجن کی فراہمی تیز ہو جاتی ہے۔ ذہنی ارتکاز میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ طبی ماہرین تو کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے جاندار خطرے از قسم خونخوار وحشی درندوں سے دور بھاگ جاتا ہے تاکہ جان بچا لے مگر کامران جیسے استاد سے ایڈرینالین بھی نہیں بچا سکتا اور بچے کو سبق مل جاتا ہے۔

بہرحال استاد نے بچے کے ذہنی ارتکاز میں مزید اضافہ کرنے کی خاطر اسے بالوں سے پکڑ کر جھٹکے دیے اور پھر ذہنی صلاحیت پر براہ راست کام کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کے سر کو دیوار سے ٹکرا دیا۔ اب بچہ استاد کا دیا ہوا اتنا علم برداشت نہ کر پایا تو چیخیں مارنے لگا کہ مجھے کچھ ہو رہا ہے اور زمین پر گر گیا۔ سکول کے دوسرے قابل استاد بھی آ گئے۔ بچہ پندرہ بیس منٹ زمین پر بے ہوش پڑا رہا اور قابل اساتذہ ایک دوسرے کو کہتے رہے کہ ”دیکھ لو کوئی سسٹم وغیرہ ہے تو اسے صحیح کر لو“۔ بائیالوجی کا استاد آیا اور اپنی سائنس لڑانے لگا۔ بیس منٹ بعد ریاضی کا استاد آیا جس نے بائیالوجی نہیں پڑھ رکھی تھی اور اس کے پاس اپنی کوئی جگاڑ نہیں تھی جس سے بچے کا سسٹم ٹھیک کر لیتا۔ اس نے اپنی نا اہلی کے سبب شور مچا دیا کہ یہ ایمرجنسی ہے اسے ہسپتال لے جاؤ۔ بچے کو ہسپتال لے کر گئے تو پتہ چلا کہ وہ اب ایک لاش ہے۔

امریکن لائسٹف ایک بہترین سکول ہے جو میٹرک کے طلبہ سے نو ہزار ماہانہ فیس لیتا ہے، دیگر اخراجات ملا کر چونتیس ہزار میں ایڈمیشن ہوتا ہے، اسی وجہ سے اپنے طلبہ کی تعلیمی صحت کا اتنا زیادہ خیال رکھتا ہے اور دل میں ان کا درد رکھنے والے اساتذہ کو کڑی چھان بین کے بعد ملازمت دیتا ہے۔ اس واقعے سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ اساتذہ اپنے اس دل کے درد کو طلبہ کے جسم میں منتقل کرنا یقینی بناتے ہیں۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک استاد طالب علموں پر اس قدر محنت کرے کہ اس کی چیخیں نکل جائیں اور سکول انتظامیہ کو خبر تک نہ ہو۔

والدین یہی سوچ کر تو اپنے پیارے بچوں کو ایسے اچھے اور مہنگے سکول میں داخل کرواتے ہیں کہ ادھر سے پڑھ لکھ کر بڑا انسان بنے گا اور پڑھنے لکھنے میں ناکام رہا تو لاش بنے گا۔ یہ اعلی درجے کا انگلش میڈیم سکول تو ان مدرسوں سے بہتر نکلا جن کے ایڈرینالین بیسڈ طریقہ تعلیم کے بارے میں ہمیں گاہے بگاہے اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ بعض لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ حافظ حنین بلال کو اگر مدرسے میں داخل کروا دیا جاتا تو وہ زندہ بچ جاتا لیکن ایسی زندگی کس کام کی جس میں انگلش میڈیم تعلیم نہ ملے؟

ہم شاگردوں سے اس قدر محبت کرنے والے اساتذہ بھرتی کرنے پر اس بہترین سکول کی انتظامیہ کو داد دیتے ہیں جو سر پر چوٹ کھائے طلبہ کا سسٹم خود سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کامران جیسا استاد رکھنے پر مزید تعریف کرتے ہیں جو سرکاری سکولوں میں ”مار نہیں پیار“ کے خراب زمانے میں بھی طلبہ پر اتنی زیادہ محنت کرتا ہے۔ سکول کی انتظامیہ کو اس بات پر بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ بچوں کی چیخوں کو بھی وہ نظرانداز کرتی ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ یہ سب بچے کی بھلائی کے لئے کیا جا رہا ہے۔ علم کی راہ میں مرنے والا شہید ہوتا ہے، بچے کی اس سے زیادہ بھلائی کیا ہو گی کہ اسے سکول میں شہید کر دیا جائے؟

ہم پنجاب کی موجودہ اور گزشتہ پچاس سال کی سابقہ حکومتوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو بچوں کی بھلائی کے لئے ایسے اساتذہ اور ایسے سکولوں کو کام کرنے کی کھلی چھوٹ دے چکی ہے اور کبھی ان کے کام میں بلاوجہ دخل اندازی کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔

خیر حنین تو شہید ہو گیا۔ ہمیں فکر اس بات کی کرنی چاہیے کہ پنجاب پولیس کی حراست میں لوگ کیوں مر رہے ہیں، ملتان میں مئی میں عاصمہ نامی استانی کو بھی ذہنی تشدد کا نشانہ بننے پر ہیمرج کا شکار ہونے پر اسی طرح کوئی طبی امداد کیوں نہیں دی گئی تھی، اور کراچی میں لوگوں نے خود ہی کیوں ایک بچے کو چوری کا الزام لگا کر قتل کر ڈالا تھا۔ معاشرے میں تشدد سے محبت کیوں بڑھ رہی ہے؟ ہمیں امید ہے کہ اس سوال پر امیرکن لائسٹف کے قابل اساتذہ روشنی ڈالیں گے۔
نوٹ: یہ بچوں پر وحشیانہ ظلم اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے خلاف ایک طنزیہ تحریر ہے۔

اسی بارے میں: عاصمہ نامی لڑکی پر ملتان کے لاریٹس سکول کے احسانات

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar