مولانا آ رہے ہیں یا سیاست سے جا رہے ہیں؟


اک طرف نواز شریف ہیں۔ آصف زرداری ہیں۔ جیل میں ہیں۔ ان کی پارٹیاں بات کرتے گھبراتی ہیں۔ بلاول بولتا ہے تو کرنٹ پھرتا ہے، پر تھوڑی دیر میں نارمل ہو جاتی صورتحال۔ مریم بڑے جلسے کر رہی تھی اب اک کیس میں اندر ہے۔ باقی نون لیگ منہ اٹھا کر ادھر ادھر دے رہی جو بہت انقلابی تھے گواچی گاں کی طرح پھر رہے۔

مولانا فضل الرحمان نے لاک ڈاؤن کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہاں ذرا ٹھہریں منظور پشتین کو یاد کریں۔ وہ جو نعرے لے کر اٹھا تھا اس کے بعد سیدھا تصادم ہوا۔ دو ممبران جیل پہنچے اور پی ٹی ایم کو چپ لگ گئی۔ کوئی مستقبل بظاہر اب ان کا دکھائی نہیں دیتا۔

مولانا اب اصل اپوزیشن کے طور پر ابھرتے ہوئے سامنے آ رہے ہیں۔ وہ منظور پشتین والی باتیں بھی طریقے سے کر رہے ہیں۔ سوال اٹھا رہے ہیں لیکن لائین کراس نہیں کر رہے۔ البتہ دفاعی پوزیشن پر ضرور کھڑا کر دیا ہے انہوں نے حکومت کو بھی اور اسے لانے والوں کو بھی۔ وہ معیشت کی بات کر رہے ہیں۔ کشمیر ایشو پر سوال اٹھا رہے ہیں، سی پیک کا ذکر کر رہے ہیں کہ اس پر کام کیوں سست ہو گیا۔ وہ عام آدمی جو مہنگائی سے پریشان ہے اس کی بات کر رہے ہیں۔ یہ سب باتیں وہ پہلے کر رہے ہیں۔ اپنی مذہبی شناخت کے حوالوں مدارس سے متعلق مسائل کا ذکر بعد میں کر رہے ہیں۔

یہ البتہ وہ ضرور کر رہے ہیں کہ مدارس کی تنظیموں سے کہہ رہے ہیں کہ حکومت سے مذاکرات ختم کریں۔ یہ حکومت بدنیت ہے یہ وہ اپنی سیاسی ضرورت کے تحت کر رہے ہیں کہ انہیں بہرحال انہی مدارس سے اپنی سپورٹ بیس کو آواز تو دینی ہے۔ انہی مدارس کے طلبہ کو وہ ختم نبوت کے ایشو پر قانون سازی پر خدشات کا حوالہ دے رہے ہیں۔ یہ باتیں وہ کر ضرور رہے ہیں لیکن مطالبات کے اپنے ایجنڈے پر انہوں نے یہ سب بہت نیچے رکھی ہیں۔ وہ الیکشن میں دھاندلی، کاروباری لوگوں کے مسائل کو اٹھاتے ہوئے حکومت کو گرانے اور نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بہت منطقی انداز سے اپنا بیانیہ ترتیب دے رہے ہیں۔ چیلنج بھی کر رہے ہیں بات چیت کا آپشن بھی رکھ رہے ہیں۔ مولانا بس ایسے ہی ہیں اور جیسے ہیں ویسے اپنی آئی پر آ جائیں تو انہیں ڈیل کرتے اچھے اچھوں کو دانتوں پسینہ آ جاتا ہے۔

مولانا الیکشن جیتنے کے بعد اپنی پارلیمانی طاقت سے زیادہ شیئر لیتے رہے ہیں حکومتوں سے۔ البتہ انہوں نے جب بھی حکومت میں شمولیت اختیار کی ہے تو وہ منتخب حکومت میں پارلیمانی راستے سے ہی شامل ہوئے ہیں۔ مشرف دور میں وہ سٹیک ہولڈر بھی بنے۔ اپنے سٹیک بچا کر اپوزیشن بھی کرتے رہے۔ ان کی سیاست تھی جس کے لیے انہوں نے الزام بھی سہے۔

ایک الزام ان پر لگتا ہے کہ امریکی سفیر سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کبھی داڑھی والے پر اعتبار کرو زیادہ اچھے رہو گے۔ اگر سوچا جائے تو اس بات میں کچھ غلط یوں بھی نہیں تھا کہ ہم اک عالمی نظام میں رہتے ہیں، حکومت بنانے چلانے کے لیے حمایت صرف ووٹر صرف اداروں کی ہی کافی نہیں ہوتی بیرونی حمایت بھی درکار ہوتی ہے۔

مولانا نے اپنی بات خود کی اس کا مذاق بنا دیا گیا۔ باقیوں نے اس کے لیے بندے رکھے ہوئے ہیں تو وہ سارے زیرو میٹر پھر رہے۔ ابھی کپتان کو امریکہ دورے پر کامیاب کرنے کے لیے سر جی کو خود ساتھ جانا پڑا یہ کیا تھا۔ اک حکومت کو حمایت دلوانے کے لیے اجتماعی کوشش۔ یہ دیکھ کر مولانا پر بھی کوئی الزام بنتا نہیں ہے۔

اگر تو ساری پارٹیاں ہماری پارٹیاں ہیں جو کہ یقینا ہیں تو مولانا کا بھی پورا حق ہے کہ وہ اس سسٹم میں اعلی ترین منصب کے لیے کوشش کریں۔ سیاست ہے پاور گیم ہے۔ مولانا اگر آج مذہبی جماعتی سیاست کے لیے نہیں کھڑے ہوتے تو ان کی سیاست تو ختم ہو گی ہی دیوبند سکول کے نام پر سیاست بھی اک لمبا عرصہ ممکن نہیں رہے گی۔

مولانا ان حالات میں اپنا کیس کیسے لے کر آتے ہیں۔ حل کیا پیش کرتے ہیں۔ دباؤ کیسے ڈالتے ہیں حکومت کو بے بس کیسے کرتے ہیں جمہوریت پر اصرار کیسے کرتے ہیں یہ سب فیصلہ کر دے گا کہ انہیں بطور ووٹر اک آپشن سوچ جا سکتا یا نہیں۔ اگر وہ راستے میں کہیں رک کر تھک کر کوئی ڈیل کرتے ہیں۔ تو اپنے سیاسی خاتمے کے لیے پھر خود ہی کافی ہوں گے ۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi