کربلا ایک طاقتور تہذیبی استعارہ بن چکا ہے


مذہب چھوڑنا آسان ہے، مسلک کبھی نہیں چھوٹتا۔ کسی نہ کسی شکل میں قائم رہتا ہے۔

سب کا اپنا اپنا سفر ہے۔ اہم یہ ہے کہ آپ نے سفر شروع کہاں سے کیا ہے۔ وہ ملحدین یا متشکک جنھوں نے ایک کٹر سُنی گھرانے میں آنکھ کھولی، ملحد ہونے کے باوجود کربلا کے واقعے کو غیر جانبداری کی آنکھ سے نہیں دیکھ پاتے۔ اور کربلا پر بات کرتے ہوئے ان کا بنیادی مسلکی رجحان چھلک پڑتا ہے۔ یہی معاملہ ان ملحدوں یا عقلیت پرستوں کے ساتھ ہے جنھوں نے ایک شیعہ ماحول میں پرورش پائی۔ وہ کربلا کے حِصار میں رہتے ہیں۔ اور یہ واقعہ کسی نہ کسی شکل میں ان کے لیے ایک جذباتی اہمیت رکھتا ہے۔

ایسے رویوں پر کوئی ماہر نفسیات دان ہی ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔ کیوں کہ چند امیجز، چند واقعات، چند سِمبلز اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ ان سے جان چھڑانا ناممکن ہو جاتا ہے۔

اور کربلا ایک طاقتور تہذیبی استعارہ بن چکا ہے۔ یہ مذہب کی ڈومین سے نکل کر لیجنڈ یا ایک المیہ و رزمیہ داستان کا درجہ اختیار کر گیا۔ جیسے اوڈیسی ہے۔ جیسے ایلیاڈ ہے اور جیسے مہابھارت ہے۔ مذہب کی ڈومین سے نکل جانا ہی اس کی آفاقیت پر دلالت ہے۔

یہ ایک ایسا پر شکوہ تہذیبی حوالہ ہے کہ جس نے مذہبیوں اور غیر مذہبیوں کو یکساں طور پہ متاثر کیا ہے۔ یہ ایک ایسا بین الطبقاتی نظریہ ہے کہ جس میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی قید نہیں۔ جون ایلیا اور جوش ملیح آبادی۔ فیض اور سبطِ حسن۔ اس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا ہے۔

کربلا ہماری تاریخ میں رچ بس گیا ہے۔ اس نے ہر ثقافت اور مقامیت کے اعتبار سے اپنے آپ کو ڈھالا ہے۔ اور ہر تہذیب کے زبان و ادب میں اپنا مقام پیدا کیا ہے۔ اس طرح کربلا نے جہاں تہذیبوں پر اثرات چھوڑے ہیں وہیں واقعہ کربلا خود بھی ان مقامی رنگوں میں رنگتا چلا گیا۔ پنجاب کے پانچ دریا ہوں یا گنگا جمنی تہذیب، ایران ہو کہ لبنان، کویت ہو کہ شام ہر جگہ یہ واقعہ مقامی تغیرات کے ساتھ موجود ہے۔ اور اس کی یاد منانے کے طریقے بھی ثقافتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بدلتے ہیں۔

پنجاب میں امام حسین کے گھوڑے کی شبیہ بنتی ہے تو عراق میں تصویری اور تمثیلی طور پر اس واقعہ کو پیش کیا جاتا ہے۔ برصغیر اور عراق میں خون کا ماتم ہے تو ایران اور لبنان میں نہیں ہے۔

سرائیکی مرثیہ یا نوحہ اپنی شعریات میں اردو مرثیے سے مختلف ہے۔ پنجاب اور ہندوستان کی مقامی ثقافتیں اس میں گُندھ گئی ہیں۔ یہاں ذاکرین اکبر کی شادی یا قاسم کی مہندی کا ذکر کرتے ہیں تو سننے والے دھاڑیں مار مار کے روتے ہیں۔ جبکہ ایران یا لبنان والوں کے ہاں ایسی کوئی روایت موجود ہی نہیں ہے۔ ہمارا بہت سارا ادبی ورثہ کربلا سے متاثر ہے

ملحدوں، عقلیت پرستوں یا مسلمانوں کے ہی ایک کٹر پنتھ گروہ کے سوالوں اور تاویلوں سے کربلا کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ کربلا محض ایک اعتقادی مسئلہ نہیں رہا۔ یہ تہذیب، زبان اور ادب کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).