لیجنڈری عبدالقادر سے میری آخری گفتگو


جمعہ 6 ستمبر کو میں اپنے دفتر میں پروگرام کر کے بیٹھا تھا کہ رات 07:59 منٹ پر عبدالقادر صاحب کی کال میرے موبائل پر آئی، ہمیشہ کی طرح وہی خوش گفتار انداز میں گفتگو کرنے والے عبدالقادر صاحب سے 37 منٹ میری بات چیت ہوئی۔ میری ان سے گفتگو اس بات پر ختم ہوئی کہ بچی مجھے آواز دے رہی ہے، میرا کھانا لگ گیا ہے. عموماً قادر بھائی کھانے کے دوران یا کھانے کے وقت مجھے کہتے تھے کہ میں آپ کو کال کرتا ہوں، لیکن اس بار میں نے قادر بھائی سے کہا کہ آپ کھانا کھائیں پھر بات ہوتی ہے، مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ میری قادر بھائی سے آخری بار بات ہو رہی ہے۔

میں اپنی ”اسکور“ ٹیم کے ارسلان اور رمیز کے ساتھ پریس کلب کھانے کے لئے دفتر سے نکلا، ابھی پہلا لقمہ بھی نہیں لیا تھا کہ آفس سے خرم صدیقی صاحب کا فون آیا، انہوں نے کہا یہ خبر سچ ہے کہ قادر بھائی کا انتقال ہوگیا؟

 میرے منہ سے بے ساختہ نکلا، خرم بھائی ابھی تو میری بات ہو رہی تھی۔ پھر میں نے قادر بھائی کو ڈرتے ہوئے فون ملایا، دوسری طرف سے کسی خاتون نے فون اٹھایا، اور میرے استفسار پر بولیں، جی ان کی طبیعت خراب ہے، کہہ کر فون کاٹ دیا۔ خرم صدیقی کی بات میرے کانوں میں گونج رہی تھی، مجھے لگ رہا تھا، جیسے کچھ ہو گیا ہے.

میں نے دوسرے فون سے قادر بھائی کے سب سے لاڈلے بیٹے سلمان کو فون کیا، جو مسلسل مصروف تھا، پھر چند منٹ بعد سلمان نے مجھے خود فون کیا، اور کہا یحییٰ بھائی ”پاکستان کرکٹ میں سچ بولنے والی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی ہے“۔

واقعی سلمان قادر کے الفاظ درست تھے، با اصول، با کردار اور حق بات کہنے والے عبدالقادر جو 15 ستمبر 1955 ء کو پیدا ہوئے، اپنی 64 ویں سالگرہ سے 8 دن پہلے مرحوم ہو گئے۔” باؤ“ کے نام سے مشہور عبدالقادر نے 1977 ء سے 1993 ء تک پاکستان کے لئے 67 ٹیسٹ اور 104 ون ڈے کھیلے، 2009 ء میں انگلینڈ میں یونس خان کی قیادت میں آئی سی سی ورلڈ ٹی 20 جیتنے والی ٹیم کو منتخب کرنے والے اسکواڈ کے چیف سلیکٹر عبدالقادر ہی تھے، جنہوں نے بورڈ کو شعیب اختر کو ٹیم سے الگ کرنے پر استعفیٰ دے دیا تھا۔

چودھری ذکاء اشرف کے دور میں عبدالقادر اسپن بولنگ کوچ کی حیثیت سے ایک بار پھر منسلک ہوئے، تاہم اصولوں پر سودے بازی نہ کرنے والے عبدالقادر بورڈ کے ساتھ زیادہ دیر نہ چل سکے۔ ”صدی“ کے 100 بہترین کھلاڑیوں میں منتخب ہونے والے واحد کرکٹر جنہیں آسڑیلیا کا ”رائیڈر“ میڈل ملا۔ حکومت پاکستان نے انہیں ”تمغہ حسن“ کارکردگی سے نوازا۔ ”مشرق کے جادوگر“ کہلانے والے عبدالقادر سے ملاقات کے لئے آسڑیلیا کے لئے 708 ٹیسٹ وکٹیں لینے والے شین وارن لاہور میں ان کے گھر گئے، دوسری جانب انگلینڈ کے سابق کپتان گراہم گوچ نے عبدالقادر کو شین وارن سے بہتر بولر قرار دیا۔

 میرا عبدالقادر سے تعلق کیا تھا؟ بطور کھیلوں کے صحافی قادر بھائی نے ہمیشہ میری پذیرائی کی۔ وہ اکثر میرے پروگرام ”اسکور“ کو دیکھنے کے بعد کسی اور ٹی وی پر میرا تبصرہ دیکھ کر ضرور فون کرتے، لیکن افسوس اب وہ مجھے کبھی فون نہیں کریں گے، وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے چلے گئے ہیں، بہت مطمئن اور پرسکون ہو کر۔ قادر بھائی پاکستان کے ان چند کرکٹرز میں سے تھے جنھوں نے بورڈ کی جانب نوکری کے لئے نہیں دیکھا، وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو وہ ”امی“ یا کپتان کہتے تھے۔

 عمران خان سے بنی گالا میں وزیر اعظم بننے کے بعد جب وہ جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس سمیت دیگر کرکٹرز کے ہمراہ گئے تو انہوں نے سابق ٹیسٹ کپتان معین خان کے ہمراہ محکمہ جاتی کرکٹ کو ختم کرنے کی سخت مخالفت کی تھی۔ قادر بھائی ”پی سی بی“ اور میچ فکسنگ کے خلاف کھل کر اور بے باک گفتگو کرنے والے کرکٹر تھے۔ عبدالقادر ایک سادہ انسان تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری عقیدت اور اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود رہنے والے عاجز بندے تھے۔

 رحمان قادر، سلمان قادر اور عثمان قادر کے ساتھ ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ چھوٹی صاحبزادی نور ٹیسٹ بیٹس مین عمر اکمل کی اہلیہ ہیں۔ صحت کے حوالے سے عبدالقادر کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس سال 9 اپر یل کو جب میں لاہور عبدالقادر کا انٹرویو کرنے گیا تو وہ مجھے گورنمنٹ اسپتال اپنے ہمراہ ڈاکٹر شہزاد انور کے پاس اپنی پتھری کے علاج کے سلسلے میں لے کر گئے تھے۔ ہاں سفر کے حوالے سے عبدالقادر اب زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے، حالیہ عرصے میں کراچی میں جو دو سیمینار ہم نے منعقدکیے، عبدالقادر صاحب نہیں آئے۔

 عبدالقادر زرعی ترقیاتی بینک کے کوچ تھے، انہوں نے گذشتہ سیزن میں اپنی ٹیم کو ”گریڈ“ ون میں کوالیفائی کرایا تھا، البتہ محکمہ جاتی کرکٹ ختم ہونے سے ان کی کوچنگ بھی ختم ہوگئی تھی۔ عبدالقادر کے فرزند سلمان قادر ”ایل سی سی اے“ گراؤنڈ پر انہی کے نام سے اکیڈمی چلا رہے ہیں۔ عبدالقادر ایک زندہ دل اور سچ بولنے والے شخص تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).