انچولی کا محرم اور مجالس


آپ انچولی میں ایک سال محرم کرلیں۔ اس کے بعد نجف جائیں، کربلا جائیں، مشہد جائیں، دمشق جائیں، آپ کو اجنبیت کا احساس نہیں ہوگا۔ انسانوں کے دل میں ایک جیسے جذبات ہوں تو شہروں کی فضا بھی ایک جیسی ہوجاتی ہے۔

میں جب انچولی کہتا ہوں تو اس سے مراد کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا کا بلاک نمبر بیس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ انچولی میں بلاک سترہ کو بھی شامل کرتے ہیں۔ کچھ لوگ بلاک بیس کے ایک حصے کو النور میں شامل کرتے ہیں۔ اہل تشیع کا اصرار ہے کہ بلاک بیس کا نام انچولی نہیں، سادات کالونی ہے۔ اہل سنت بھی کوئی نام بتاتے ہیں۔ لیکن بھئی ہم تو انچولی ہی کہیں گے۔ ہمیں تو یہی نام پسند ہے۔

انچولی میں بھانت بھانت کے شیعہ نظر آتے ہیں۔ امروہے والے شیعہ، سادات بارہہ کے شیعہ، بہاری شیعہ، متعصب شیعہ، روادار شیعہ، ملحد شیعہ، علی اللہ والے شیعہ، اسی قافیے میں ایک اور طرح کے شیعہ۔

انچولی میں آدھی آبادی ادھر رہتی ہے، آدھی ادھر، بیچوں بیچ سلسلے وار میدان ہیں۔ میں نے وہ وقت دیکھا ہے جب ایک طرف شیعہ زیادہ تھے اور آٹے میں نمک برابر سنی۔ دوسری جانب سنی زیادہ تھے اور آٹے میں نمک برابر شیعہ۔

نوے کی دہائی میں دہشت گردی شروع ہوئی تو کراچی کے مختلف علاقوں کے شیعہ انچولی کو محفوظ سمجھ کر یہاں منتقل ہونے لگے۔ جس رفتار سے شیعہ آئے، اس سے دوگنا رفتار سے اہلسنت یہ بلاک چھوڑ کر رخصت ہونے لگے۔ اب اس پرات میں صرف آٹا بچا ہے۔ نمک غائب ہوچکا ہے۔

اہل تشیع جب ایک علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقے میں جاتے ہیں تو اپنی مجلسیں، اپنے جلوس ساتھ لے جاتے ہیں۔ انچولی میں شیعہ بڑھے تو مجلسیں اور جلوس بھی بڑھے۔ ان دنوں انچولی میں سال کا پہلا جلوس چار محرم کو میرے ماموں کے گھر سے اٹھتا تھا۔ اسی تاریخ کو ایک اور جلوس بھی شاید ڈپٹی صاحب کے ہاں سے برآمد ہوتا تھا۔ پھر ایک رات کاروان نجف کا دستہ چند گلیوں میں ماتم کرتا ہوا گشت کرتا تھا۔ پھر سات محرم کو السید اسٹریٹ سے امروہے والوں کا جلوس برآمد ہوتا تھا اور اس میں بہت رش ہوتا تھا۔ اس کے بعد شب عاشور کو خیرالعمل روڈ پر بڑا جلوس نکلتا تھا۔

یہ تمام جلوس برقرار ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے جلوس اٹھنے لگے ہیں۔ محرم کا چاند دیکھتے ہی کئی گھروں سے علم نکل آتے ہیں۔ اگلے دس دن تک اتنے جلوس برآمد ہوتے ہیں کہ کوئی شمار نہیں۔

محرم کے دس دن بلکہ آٹھ ربیع الاول تک کسی اور علاقے میں اتنی مجلسیں نہیں ہوتیں جتنی انچولی میں ہوتی ہیں۔ صبح سویرے خواتین کی مجالس سے آغاز ہوتا ہے اور آخری مجلس نصف شب کے بعد تک جاری رہتی ہے۔

عام خیال ہے کہ محرم دس دن کا ہوتا ہے۔ عاشور کے بعد سب ختم۔ لیکن بیشتر اہل تشیع کا سوگ چہلم تک برقرار رہتا ہے۔ محرم کے پہلے دس دن اور صفر کی گیارہویں سے بیسویں تک خصوصی عشرے یعنی دس مجالس کے سلسلے ہوتے ہیں۔ درمیان میں بھی لوگ گھروں اور امام بارگاہوں میں سالانہ مجالس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہر ہفتے کو مختلف امام بارگاہوں میں شب بیداری ہوتی ہے۔ اس میں مجلس کے بعد ماتمی انجمنیں ایک ایک کرکے آتی ہیں اور دو یا تین یا چار نوحے پڑھتی ہیں۔ یہ سلسلہ فجر کی اذان تک جاری رہتا ہے۔

کچھ شیعوں مثلاً امروہے والوں کا سوگ چہلم کے ساتھ ختم نہیں ہوتا۔ وہ سوا دو مہینے کا سوگ مناتے ہیں۔ آٹھ ربیع الاول کو گیارہویں امام حسن عسکری کی شہادت کا جلوس نکالتے ہیں۔ اس دن تک سوگ برقرار رہتا ہے۔

ہم جب کراچی منتقل ہوئے، تب انچولی میں دو امام بارگاہ تھے۔ بارگاہ چہاردہ معصومین، جس کی انتظامیہ امروہے والوں کی ہے۔ اور امام بارگاہ مرتضوی، جو صرف خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ بارگاہ شہدائے کربلا میرے سامنے بنا جو شہر کے بڑے امام بارگاہوں میں سے ایک ہے۔ ایک بارگاہ فاطمہ زہرا بھی قائم کیا گیا ہے۔

لیکن میں نے انچولی میں جو عظیم اجتماعات دیکھے ہیں، وہ امروہا فٹبال گراؤنڈ میں ہوئے۔ یہاں میں نے عبدالحکیم بوترابی کے کمال خطابت کا مشاہدہ کیا۔ شوکت رضا شوکت کو اپنی شاعری سے مجمع لوٹتے دیکھا۔ علامہ تاج الدین حیدری کی انتہا درجے کے تبرا والی مجلسیں سنیں۔ اب یہ میدان علامہ ضمیر اختر نقوی کے سامعین سے بھرتا ہے۔

علامہ تاج الدین حیدری ایک دلچسپ شخصیت تھے۔ غالباً سنی سے شیعہ ہوئے تھے۔ ایسا عالم تبرائی ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ کئی شاگرد ان کی کتابوں کا صندوقچہ لے کر چلتے تھے۔ مجلس کے دوران علامہ کتابوں کے حوالے اور صفحہ نمبر تک بتاتے چلے جاتے تھے اور ان کے شاگرد وہ کتاب اٹھا کر سب کو دکھاتے رہتے تھے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi