کیرتھر پہاڑ کے دامن میں تعلیم کا جلتا ہوا چراغ


سندھ بلوچستان سرحد کو جہاں سے کیرتھر پہاڑوں کی رینج تقسیم کرتی ہے وہاں کی معاشی اور معاشرتی حالت اتنی کمزور اور تباہ حال رہی ہے کہ اگر دھرتی سے محبت آڑے نہ آتی تو یہ نیم پہاڑی علاقہ ”آب گم“ کی طرح ”آدم گم“ کہلاتا۔ سندھ کے ان شمالی علاقہ جات کو ”چانڈکا“ بھی کہا جاتا ہے، جو وہاں کی سب سے بڑی چانڈیو برادری کے نام سے موسوم ہے۔ سندھ کے سمہ حکمرانوں کے دور ( 1351۔ 1524 ) میں یہ علاقہ جنگجو چانڈیو قبیلے کو چاندی کے ورق پر سونے کے پانی سے لکھ کر حوالے کیا گیا۔ شرط صرف یہ تھی کہ اب یہ علاقہ پنجاب بلوچستان اور سندھ کے درمیان بفرزون کا کام کرے گا، چانڈیو برادری کسی قبضہ گیر کو سندھ کی شمالی سرحدوں سے اندر گھسنے نہیں دیگی۔

لاڑکانہ کا پرانا نام بھی چانڈکا ہے، اسی نام پر شہید بھٹو نے لاڑکانہ میں ”چانڈکا میڈیکل کالج“ کی بنیاد رکھی تھی۔ لاڑکانہ سیاسی اور تعلیمی میدان میں ہمیشہ سے آگے رہا مگر اس کے یہ سرحدی علاقے شروع سے معاشی بدتری کا شکار رہے ہیں۔

دریاؤں سے بہت دور اور آبپاشی کینالوں کے بالکل آخر میں واقع ہونے کی وجہ سے بھی یہاں کی زمینیں بانجھ پن سے اپنی جان نہیں چھڑا سکی تھیں کہ دادو اور رائیس کنال کمانڈ ایریا کے پورے ایریگیشن ڈرینیج سسٹم کا آخری چھوڑ بھی اس علاقے کو بنا دیا گیا۔ سندھ اور بلوچستان کے گندے پانی کو میروخان ڈرین، شہدادکوٹ ڈرین اور بلوچستان سے آنے والے آلودہ پانی کو زیرو پوائنٹ کے قریب اس حمل جھیل میں چھوڑا جاتا ہے جو منچھر جھیل کے بعد سندھ کی سب سے بڑی جھیل مانی جاتی ہے۔ یہ جھیل کبھی سائیبیریا سے آنے والے پرندوں کے سب سے اہم آماجگاہ تھی مگر اب مکمل طور پر آلودہ ہونے کے بعد اب پردیسی پرندوں نے آنا ہی چھوڑ دیا اور باقی عام لوگوں کا آنا تو ویسے ہی بند کردیا گیا ہے۔

حمل جھیل اصل میں پہاڑی اور میدانی علاقے کے دامن میں بنی وہ جھیل ہے جو پہاڑوں سے بارش کے آنے والے تیز پانی سے میدانی علاقوں کو بچانے کے لئے انگریز دور میں بنائے گئے فلڈ پروٹیکشن بند (FP Band) کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ سینکڑوں کلومیٹرز میں پھیلی اس جھیل میں سینکڑوں قسم کی آبی حیات پائی جاتی ہیں۔ حمل جھیل سے اور منچھر جھیل کے ملانے کے لئے دونوں جھیلوں تک قائم ایف پی بند کے ساتھ ساتھ ڈرینیج سسٹم بنایا گیا، جس کو اب اور چوڑا کرکے رائیٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (RBOD) تعمیر کی جارہی ہے جو بلوچستان اور سندھ کے آلودہ پانی اور فضلے کو سمندر برد کرے گا۔

حمل جھیل کے کنارے صدیوں سے قائم تاریخی شہر غیبی دیرو اور گھڑتل کے ساتھ ساتھ کئی قصبے اور گاؤں موجود تو ہیں مگر کم و بیش تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ خاص طور پر حمل گاؤں میں کوئی بھی مکمل سہولت میسر نہیں۔ گاؤں میں بچوں اور بچیوں کے لئے دو پرائمری سکول تو موجود ہیں مگر استاد صرف ایک ہے۔ گاؤں سے سوشل ورکر عرفان علی چانڈیو کا کہنا ہے کہ ”لڑکیوں کا اسکول آٹھ سال پہلے بن کر تیار تو ہوگیا تھا مگر وہ ایک دن کے لئے بھی نہیں کھل سکا۔ جبکہ لڑکوں کے پرائمری اسکول میں پہلے دو استاد مقرر تھے جن میں سے بھی ایک کا تبادلہ ہونے کے بعد صرف ایک استاد اختیار علی چانڈیو بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔“

اختیار علی اس گاؤں کو سب سے زیادہ پڑھا لکھا نوجوان ہے۔ اس نے ایجوکیشن میں گریجویشن اور ماسٹرز کر رکھی ہے اور شہر میں رہنے کے بجائے واپس گاؤں پہنچ کر بچوں کو پڑھانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ نیم قبائلی علاقے میں جہاں لڑکیوں کا اسکول بھی آٹھ سال سے بند پڑا ہے وہاں استاد اختیار علی گلی گلی گھر گھر جاکر لوگوں کو اس بات پر راضی کرنے میں جٹے ہوئے ہیں کہ اپنے لڑکوں کے ساتھ اپنی بچیوں کو بھی پڑھاؤ۔ آس پاس کے گاؤں کی آبادی کے تناسب سے یہاں سب سے زیادہ بچے پڑھنے آتے ہیں۔

استاد اختیار کا کہنا ہے کہ ”ہمارے بزرگ دو صدیوں سے ایسی صورتحال سے نبرد آزما رہے ہیں، اب انہوں نے اس مشکل صورتحال کا سامنا کرنے کی ٹھان لی ہے، مطلب ان انہوں نے بچوں کو پڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس وقت میرے پاس صرف دو کمروں کے اسکول میں کمروں، برآمدے اور باہر درخت کے نیچے کلاسیں چلتی ہیں۔ اس طرح کلاس اول میں 60، درجہ دوئم میں 20، درجہ سوئم میں 36، درجہ چہارم میں 20 اور درجہ پنچم میں 40 بچے پڑھ رہے ہیں۔ اس علاقے کے حساب سے یہ بہت بڑی تعداد ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کافی اسکولوں میں ایک سے دودرجن طالبعلم بھی مشکل سے ہوتے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے اسکول کی حالت پھر بھی اچھی ہے اس سلسلے میں جس بات نے سب سے زیادہ ہماری مدد کی ہے وہ سوشل میڈیا ہے، اس گاؤں اور آس پاس سے پڑہ لکھ کر شہروں میں روزگار حاصل کرنے والے نوجوان ہماری بہت حوصلہ افزائی اور مدد کر رہے ہیں۔

”اب نوجوان اپنے علاقے کے ایم این اے اور ایم پی ایز سے مل کر علاقے میں اسکول کھلوانے اور دیگر ترقیاتی کام کروانے کے لئے بات بھی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے سردار اور وزراء سے ایسے مطالبات کرنا ممکن نہ تھا۔ سماجی کارکن وحید چانڈیو اور عرفان چانڈیو علاقے میں سماجی تبدیلی کے لئے کام کر ہے ہیں۔ ہم اپنی برادری کے سردار نواب سردار خان چانڈیو سے امید کرتے ہیں کہ وہ دوسرے سرداروں کے برعکس اپنے علاقے کی ترقی میں ضرور عملی کردار ادا کریں گے۔ خاص طور پر علاقے میں پانی کی کمی، صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی اور تعلیم کے لئے اہم کردار ادا کریں گے۔ خاص طور پر حمل یوسی میں بچوں اور بچیوں کے لئے ہائی اسکول کا بننا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

”سندھ سرکار صوبے میں تعلیم کے لئے جو اقدامات کر رہی ہے اس میں اگر وہ شہروں سے ساتھ ساتھ گاؤں کو بھی اولیت اور اہمیت دے تو جہاں گاؤں کی سماجی اور معاشی حالات بہتر ہوگی وہاں عام لوگوں کی گاؤں سے بڑے شہروں کی طرف جانے کا رجحان بھی کم ہوجائے گا۔ اور کیرتھر کے دامن جو ہم نے تعلیم کا چراغ جلایا ہے وہ جلتا رہے گا ساتھ میں یہ روشنی آس پاس کے اور گاؤں تک سفر کرے گی۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).