ریاستِ مدینہ میں پولیس گردی پر خلیفہِ وقت خاموش کیوں؟


ریاست مدینہ کے عمران خان صاحب!

ایک سوال پوچھنا تھا مارو گے تو نہیں؟ آپ کو وزیر اعظم کس نے بنایا؟ بنایا تو بنایا لیکن اتنے اچھے مشورے کون دیتا ہے؟ پولیس کو سزا کا حُکم کس نے دیا؟ آپ کی ریاستِ مدینہ کو قائم ہوئے تقریباً ایک سال سے زائد وقت گزر گیا ہے لیکن بد قسمتی سے پولیس کے محکمے پر توجہ نہ دی جا سکی، پولیس افسران کو فوراً لگام کی ضرورت تھی جو کہ آپ شاہد زیادہ مصروفیات کی وجہ سے بھول گئے ہیں۔

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ۔ ! ”تم سے پہلے قومیں اس لیے برباد ہ ہوئیں جب ان کا کوئی امیر و کبیر جُرم کرتا تو اُسے معاف کر دیا جاتا اور جب کوئی معمولی آدمی جُرم کرتا تو اُسے سزا دی جاتی۔ “ (بخاری رقم 4304۔ )

اس ریاست کی گلیاں ماورائے عدالت قتل سے رنگین ہیں ایک رپورٹ کے مطا بق آپ کی حکومت میں ایک ہزار سے زائد افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا تاہم یہ اعداد و شُمار حقیقت سے کہیں کم ہیں۔ بڑی تعداد میں ایسے واقعات نہ منظر عام پر آتے ہیں اور نہ ہی کوئی ان کے خلاف آواز اُٹھا نے کی ہمت کر سکتا ہے۔

عمران خان صاحب! آپ اپنے ہر جلسے کی تقر یر میں یہ کہتے نظر آتے تھے کہ کُفر کا نظام توچلا سکتا ہے لیکن ظُلم کانہیں۔ لیکن آج آپ ہی کی حکومت میں پنجاب پولیس نے ایک ذہنی معذور شخص صلاح الدین کو جس بے دردی کے ساتھ قتل کیا اس پر آپ خاموش کیوں ہیں؟ کہاں ہے آپ کا وزیر جناب علی محمد خان جو کہتا تھا کہ جس کا قاتل نہ ملے تو حاکمِ وقت اس کا قاتل ہے۔ آر پی او بہاولپور عمران محمود نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ صلاح الدین پر استری سے تشدد نہیں کیا گیاجبکہ موت کے وقت خون رُکنے سے نشانات بن جاتے ہیں اور اس طرح کے واقعات اکثر ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کیا آپ نے اس بیان کا نوٹس لیا یا آپ بھی یہی موقف رکھتے ہیں؟

عمران خان صاحب! کیا اگرآپ کے بیٹوں قاسم اور سلمان کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آتا تو تب بھی آپ اور آپ کی حکومت کا یہی موقف ہوتا؟

آپ اکثر اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ یورپ میں انصاف کے پیمانے بڑے شفاف اور سخت ہیں۔ وہاں قانون ہر ایک کے لیے برابر ہے۔ وہاں کوئی مُنصف نا انصافی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اُسے نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے لیکن شاہد صلاح الدین کو پتا تھا کہ پنجاب پولیس اُسے قتل کر دے گی اس لیے وہ پاکستانی عدلیہ اور انتظامیہ کا مُنہ چڑاتے ہوئے دُنیاِ فانی سے رخصت ہوگیا۔

پولیس گردی کا یہ پہلا واقع نہیں بلکہ 2011 میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایف سی اہلکاروں نے پانچ نہتے، بے گناہ اور معصوم افراد کو گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا جن میں تین خواتین (بشمول ایک حاملہ خاتون) اور دو مرد شامل تھے۔ اسی سال کراچی کے علاقے باغ ابنِ قاسم میں رینجرز اہلکاروں نے موبائل فون چھیننے کو الزام میں ایک نوجوان کو دن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کردیا۔ 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے پولیس نے نہ صرف بے دریغ طاقت کا استعمال کیا بلکہ لوگوں کے ہجوم پربراہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 14 افراد جاں بحق اور 90 زخمی ہوئے۔

شہید نقیب اللہ محسود کو 4 جنوری 2018 میں ابو الحسن اصفہانی روڈ سے دو افراد کے ہمراہ اغوا ہ کیا گیا اور بعد ازاں انکاوئنٹر اسپشلسٹ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اُنہیں جعلی پولیس مُقابلے میں ماورائے عدالت قتل کیا۔ اسی سال 2018 میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں چیکنگ کے دوران پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے اُنیس سالہ نوجوان انتظار جاں بحق ہو گیا تھا۔ جنوری 2019 میں آپ کے دور حکومت میں ہی سی ٹی ڈی اہلکاروں نے دن دیہاڑے ساہیوال میں ایک بے گُناہ خاندان کو اُن کے معصوم بچوں کے سامنے بے دردی سے قتل کیا جس کا نوٹس آپ نے قطر کے دورے سے واپسی پر لینا تھا لیکن اُس خاندان کے معصوم بچے آج بھی اپنے والدین کے قاتلوں کے بارے میں سوال کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہی نہیں ایسے کئی انتظار، نقیب اللہ محسود، مہرخلیل اورپروفیسر ارمان لونی ہیں جنہیں عوام کے محافظوں نے جعلی پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کیا۔

وزیر اعظم صاحب! ریاست مدینہ کے تقدس کا سوال ہے کہ پولیس کی بہتری کے لیے ضروری اصلاحات کی جائیں۔ پولیس ناکوں پر موجود پولیس اہلکاروں کی تربیت کی جائے تاکہ ظُلم کی وجہ سے جو عرش میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں ہلتا تھا ایسا نہ ہووہ عرش تحریک انصاف کی حکومت میں ہلنا شروع ہو جائے کیوں کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔

عمران خان صاحب! آپ پولیس والوں سے وہ سوال ضرور کریں جو صلاح الدین نے بھی کیا تھا کہ آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟ آپ نے ظُلم کرنا کہاں سے سیکھا ہے؟ آپ نے چھوٹی پوسٹ مارٹم رپورٹس بنوانا کہاں سے سیکھا ہے؟ آپ نے جھوٹ بولنا اور انصاف بیچنا کہاں سے سیکھا ہے؟

اورآخر میں آپ سے بھی ایک سوال ہے کہ کسی اور بُے گُناہ اور مظلوم کی لاش گرنے سے پہلے پولیس کلچر کب تبدیل ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).