رات کی ماں


جب ہم چھوٹے بچے تھے اور گاؤں میں رہتے تہے، تب تک گاؤں میں بجلی نہیں آئی تھی۔ چاندنی راتوں کے علاوہ ہماری راتیں اندہیرے میں گزرتی تھیں، چونکہ ہم اسکول جاتے تھے تو پڑھائی کرنے کے لیے ہماری پاس مٹی کے تیل کی لالٹین ہوتی تھی جن کی آگے بیٹھ کرہم سبق یاد کرتے تھے۔

اندھیرا پھلنے سے پہلے، مائیں کھانا پکالیتی تھیں اور بچون کو کھانا کھلا کر سلادیتی تھیں تاکہ صبح کو جلدی اٹھیں، اگر کوئی بچہ نہیں سوتا تھا، روتا یا ضد کرتا تھا، تو مائیں انہیں ڈراتی تھیں کے سوجاؤ ورنہ تمھیں رات کی ماں آکر لے جائے گی۔

چھوٹے بچے ڈر کے مارے، رلی (سندھی چادر) اوڑھ کر سوجاتے تھے، کے واقعی رات کی ماں آکر ہمیں لے نہ جائے۔ جو نڈر بچے ہوتے تھے یا نہیں ڈرتے تھے وہ اپنی ماؤں سے پوچھتے رہتے تھے کے اماں رات کی ماں کیسی ہوتی ہی، کہاں رہتی ہی، کدہر سے آئے گی۔ کیا اسی ڈر نہیں لگتا، وہ بچون کو کہاں لی جاتی ہی، وہ ان کا کیا کرتی ہی۔ بچے طرح طرح کے سوال کرتے تھے، تو اماں کہتی تھیں کے ان کے اپنے بچے نہیں ہیں اس لئے وہ دوسروں کے بچوں کو لی جاتی ہی۔ ہم کبھی سمجھ نہیں پائے کے رات کی ماں کیسی ہوتی ہی کبھی کبھی ہم تصور کرتے تھے، تو کہیں دور سی دو، لال آگ اگلتی ہوئی آنکھیں ہمیں اپنی طرف آتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں اور ہم سہم کر رلی کے اندر گھس جاتے تھے۔

ہم بڑے ہو گئے اور وہ باتیں بھول گئے، گاؤں پیچھے چھوٹ گئے، نہ وہ چاندنی راتیں رہیں نہ وہ مائیں۔ اب تو بچوں کی مرضی ہے جب سوئیں، جب اٹھیں۔ لیکن آج کل کے حالات دیکھ کر مجھے ایسے لگتا ہے کے اماں سچی تہیں، رات کی بھی ماں ہوتی ہی، کبھی پولیس کے روپ میں صلاح دین کو ماردیتی ہیں، کبھی استاد کے روپ میں شاگرد کو ڈگری کے بجائے موت کا پروانہ تھما دیتی ہیں، کبھی ملاں اور مولوی کی صورت میں مدرسے کے بچوں کو الٹا لٹکا کر ان کا کلیجہ نکال لیتی ہیں، تو کبھی ہجوم کی صورت میں ریحان کو ننگا کر کے سنگسار کرتی ہیں، کے ریحان سنسار ہی چھوڑ دیتا ہے۔

کبھی جنسی بھیڑیوں کے روپ میں معصوم بچوں کا ریپ کرکے ان کا گلا گھونٹ دیتی ہیں، تو کبھی نامعلوم کی نام پر معصوم لوگوں کو اٹھا کر لی جاتی ہیں جن کی گلی سڑی کچلی ہوئی لاشیں بیابانوں اور صحراؤں سے ملتی ہیں۔ ہاں رات کی ماں ہوتی ہی جب ریاست ماں جیسی نہ رہے تو بہت سی رات کی مائیں پیدا ہوجاتی ہیں جو خود اپنے بچوں کو نگل جاتی ہیں۔ ان کا خون پی جاتی ہیں اور دانت نکال کر انسانیت پر ہنستی رہتی ہیں اور بی بس انسان کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں، کیونک ہمارے لب آزاد ہیں اور نہ جان کی سلامتی ہی، اب فیض کو کون بتائے کے ہمارے لب آزاد نہیں ہیں، نا ہی زبان اور جسم ہمارے ہیں، اب ہم میں جان نہیں رہی ہے اور ہم زندہ لاشیں ہیں، ہجوم کی صورت میں اپنی اپنی لاشوں کو کاندھو ں پر لادے ہوئے چل رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).