خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے آپ بدلنے کا


خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے آپ بدلنے کا

کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ ایک ہندو اور مسلمان ڈوب رہے ہوں تو خدا اس کی مدد کرے گا جو تیرنا جانتا ہو۔ اس میں ذات پات، مذہب اور عقیدے کی کوئی تفریق نہیں۔ اگرچہ نا مساعد حالات سے بہت بار ہم سرخرو نکلے ہیں بیشک وہ ہم پر اپنے رب کی مہربانی ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ قانون قدرت ہے کہ جو محنت کرتا ہے کوشش کرتا ہے قسمت اس کا ساتھ دیتی ہے۔ بھارت کا ایک تجربہ بیشک کسی حد تک کامیاب نہ ہوسکا لیکن ہم اور ہمارے وزرآ کی حیثیت اس تمام عمل میں بغلیں بجانے اور آوازیں کسنے والے ہجوم سے بڑھ کر نہیں۔ کوشش کرنا اور صحیح سمت میں کرنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اگر کسی بھی پہلو سے ہم اپنے آپ کو بھارت سے مقابلے کے لائق سمجھتے ہیں تو پہلے اپنی قوم کے حالات پر بھی غور کرتے جایئں۔

اگرچہ اخلاقی اعتبار سے ان کا معاشرہ بھی شدید پستی کا شکار ہے۔ غربت کے سائے شاید ہم سے زیادہ گہرے ہوں۔ لیکن ان کی سمت ہم سے بہتر ہے۔ ان کی انویسٹمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم سے بہتر ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی یونیورسٹی میں آپ کو اکژ انڈین طالب علم اسکالرشپس پر پڑھتے ملیں گے۔ اکثر فیکلٹی بھی انڈین مل جاتی ہے۔ اس کے برعکس اپنے ایک سال کے دوران میں نے محض چند طلبا ہی پاکستانی دیکھے ہیں۔ اور شاید اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر پاکستانی فیکلٹی۔

پاکستانی تعلیم کا معیار آج سے کچھ دہائی قبل شایہ کچھ بہتر تھا۔ کہیں نہ کہیں کچھ ادیب اور دانشور پیدا ہوتے تھے۔

اردو، انگریزی اور مذہبی علم میں ہی شاید کچھ بہتر تھے۔ آج کی نسل میں علم اور علم کی جستجومفقود نظر آتی ہے۔ ہماری قوم کے سپوت چند نمبرز کا ٹیسٹ تک پاس نہیں کر پاتے۔ سائنس سے ہم نابلد ہیں تاریخ سے ہم نے کچھ سیکھا نہیں اور مستقبل کی کامیابی ہم چند سو کی نوکری اور بچوں کے لئے عمر بھر کی پنشن کو سمجھتے ہیں اس سے بڑھ کر ہماری سوچ کسی نئے افق کی امنگ سے عاری ہے۔

550 میں سے 549 نمبر لینے والی عظیم قوم نے آج تک کسی شعبہ میں خاطر خواہ کارنامہ انجام نہیں دیا۔ نوبل انعام کی حقدار قوم کی اڑان فیسبک کے دانشور، ٹک ٹاک کے نامور اداکار اور شوبز کے عالموں سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ باتیں کرنے کا حق بھی وہ رکھتے ہیں جو کہ کسی دوڑ کا حصہ رہے ہوں۔ منزل تک پہنچنا یا کامیابی حاصل کرنا کوئی بہت بڑی بات نہیں ہوتی لیکن منزل کی جستجو رکھنا، کوشش کرنا، صحیح سمت میں آگے بڑھنا اور اپنے سے پچھلوں کو راستہ دکھانا ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں بچوں کو فیس بک کے نئے فیچرز کا تو پتا ہے لیکن اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم بھی محض ڈگری کے حصول کی خاطرپیسہ اور وقت کا ضیاع کرتے ہیں۔

ہماری خواتین کے مسائل ابھی بھی ساس بہو سے شروع ہو کر بھاوج نند کی لڑائیوں پر ختم ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر لگنے والے ڈرامہ سیریل کی نئی قسطوں پر بحث و مباحثہ میں ہماری تمام اساتذہ بھی شامل ہوتی ہیں۔ خواتین کی پسندیدہ کردار وہ ایکٹرس ہوتی ہیں جو غیر حقیقی معصومیت کی اعلی مثال ہوتی ہیں جو اپنے پر ظلم سہہ کر بھی شوہر کی بہت وفادار ہوتی ہیں۔ لیکن یہ ہی خواتین اپنی حقییقی زندگی میں اس کے مکمکل برعکس رویہ اختیار کرتی ہیں۔

شوہر یا اپنے گھریلو مسائل سے بڑھ کر ان کو ٹی وی ڈرامے یا دوسروں کے گھریلو مسائل میں دلچسپی ہے۔ اولاد کی تربیت یا اپنے حالات سنوارنے سے بھی کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال میں ہم میں کسی آئنسٹائن کا پیدا ہونا مشکل نہیں ناممکن ہے۔ دعائیں بھی تب ہی قبول ہوتی ہیں جب دوا کی کوشش شامل حال ہو۔

ان حالات میں ہم صرف طعنہ زنی کر کے رہ جاتے ہیں جبکہ دنیا ہم سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ ان کے مسائل گھریلو ناچاقیوں اور لڑائیوں تک ہی محدود نہیں۔ وہ ہر اعتبار سے دنیا کو تسخیر کرنے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ رہی سہی کسر ہمارے اشرافیہ اور سیاست دان پوری کر جاتے ہیں۔ عوام کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کی تلقین کہ بجائے ایک دوسرے پر چڑھ دوڑھنے اور اپنے سچ جھوٹ کی شاباشی کے حصول میں مصروف رکھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں شیر کے جانثار اور انصاف کے دعویدار تو ہیں لیکن اپنی بگڑتی حالت کے نہ تو کوئی ذمہ دار ہیں اور نہ ہی حالات سنوارنے کی تلقین کرنے والے لیڈران۔

خدارا سیاست سے نکلئے، ہمارا لیڈر ہیلی کاپٹرپر سفر کرتا ہو یا پیدل جاتا ہو یہ بات اتنی اہمیت نہیں رکھتی نہ ہی یہ ہمارے مسائل کا حل ہے۔ مسائل کا حل وہ ہی ہے جو تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔ کامیاب قومیں وہ ہی گزری ہیں جنہوں نے محنت سے اپنے حالات سنوارے جنہوں نے دنیا کو نئے علوم سے روشناس کروایا، جنہوں نے اپنی پہچان بنائی۔ اور نہیں تو اپنے مسائل کو اپنے وسائل سے ہی حل کیا۔

ابھی بھی وقت ہے۔ اپنے نوجوان کو سیاست سے نکال کر سائنس اور ٹیکنالوجی میں محنت اور دماغ لگانے کے لئے مجبور کریں۔ انہیں شعور اور آگاہی دیں ورنہ 14 اگست کو سائلنسر نکال کر جھنڈیاں لہرا کر موٹر سایئکلوں پر آزادی کا جشن مناتی قوم دنیا کی دوڑ میں اتنی پیچھے نہ نکل جائے کہ سب قومیں چاند اور نئی دنیائیں تسخیر کرتی ہوں اور ہم اکیلے زمین پر جشن مناتے پھریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).