مذہبی سیاست اور حالات حاضرہ


مختلف دانشور اور تجزیہ نگار مذہبی سیاست کی حیثیت اور بنیاد کے متعلق آئے روز اپنی آراء کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ کوئی اس موضوع کے حق میں لب کشائی کرتا نظر آتا ہے، تو کوئی اسے اختلاف کرتا ہے۔ موجودہ سیاست دین سے کس قدر مطابقت رکھتی ہے؟ انتظامی معاملات میں انفرادی نظریات کا کتنا عمل دخل ہے؟ یہ اک الگ موضوع بحث ہے۔ یہاں ہم سادہ طور پر وطن عزیز پاکستان کے قیام میں اساسی نظریات کے کردار اور اس کے تسلسل کا تجزیہ کرتے ہوے جدوجہد آزادی کے رہنماؤں کا نقطہ نظر اور موجودہ مذہبی جماعتوں کے طرز عمل کا جائزہ لیتے ہیں :

آزادی کی جدوجہد و مسلمانان ہند:

اٹھارویں صدی کے آخر میں برصغیر میں قائم مسلم مغل سلطنت میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں اور تجارت کے غرض سے آئے ہوے انگریز نے انتظام مملکت میں دخل دینا شروع کیا، تو مسلم رہنماؤں نے روز اول سے ہی اس کی مزاحمت شروع کی۔ میسور کے حاکم ٹیپو سلطان سے لے کر پانی پت، بالاکوٹ اور شاملی کے میدانوں تک مجاہدین نے اپنے جوہر دکھائے۔ تاریخ کے کتابوں میں ان علماءکرام کا تذکرہ نمایاں ہے جو ان معرکوں کی قیادت کر رہے تھے۔

سن 1857 ع کے بعد سے یہی جذبہ وہ تحریک عد تشدد کی صورت میں نوے سال جاری رہی، اور بالآخر وطن عزیز پاکستان قائم ہوا۔

قیام پاکستان کے بعد :

قیام پاکستان کے بعد یہ سارے علماء و مشائخ حضرات (جو کہ حالات کی پیش نظر میدان کارزار میں سیاسی شخصیات کے ہم قدم تھے بلکہ عوامی سطح پر جذبہ کی تحریک کا باعث تھے ) دوبارہ درسگاہوں و خانقاہوں میں مسندنشین ہوگئے۔ کسی سیاسی و سرکاری مراعات کے محتاج نہیں بنے۔ ہاں اہل اقتدار سے پاکستان کی بنیاد یعنی اسلام کے نفاذ کا مطالبہ ضرور کرتے رہے، جس اسلامی جذبہ کے بنیاد پر تحریک پاکستان میں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں جو کہ نوے سال پہلے اپنے بالاکوٹ اور شاملی کے میدانوں میں اپنے بڑوں کی حالت دیکھ چکے تھے (پاکستانی قوم کا اسلام کے ساتھ دلی لگن کا اسے بڑھ کر اور کون سا ثبوت پیش کیا جائے؟ )

مذہبی طبقے کا سیاست میں قدم:

نوزائدہ مملکت پاکستان اپنے قیام سے ہی سیاسی بحرانوں میں گرگئی۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں سیاسی گہماگہمی شروع ہوئی، تو اسلام کے خلاف ازلی فتنہ قادیانیت نے پھر سر اٹھایا۔ ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین پر بحث چھڑی۔ بنگلادیش میں بھی قومیت کے رنگ نے جنم لیا۔ ان حالات نے علماء و مشائخ کو دوبارہ میدان سیاست میں کودنے پہ مجبور کیا۔

خوش قسمتی یہ تھی کہ مذہبی قیادت اپنے سیاسی تجربہ میں آزادی کی جدوجہد میں ہندؤں کے ساتھ بھی کام کرچکی تھی۔ (خلافت تحریک کی مثال ہمارے سامنے ہے ) ان ہی علماء کی جدوجہد سے فرقہ پرستی کے دؤر میں قرارداد مقاصد جیسی متفقہ کاوش سامنے آئی، جو تاحال آئین پاکستان کا حصہ ہے۔

معتدل دینی جماعتیں اور فرقہ واریت:

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاسی بحرانوں کے دور میں اس تجربہ کار معتدل دینی قیادت سے کام لے کر اپنے اساسی نظریاتی تشخص کو مضبوط بنایا جائے۔ مگر کیا کیا جائے ان موقع پرست نام نھاد طبقے کا، جنھوں نے علماء پر تنقید کے تیر برسائے، بلکہ ان کی حب الوطنی پہ سوالات اٹھائے گئے۔ حالانکہ تقسیم ہند کے مسئلہ پر اصولی اختلاف کو بنیاد بناکر ڈیڈھ سو سالہ آزادی کی جدوجہد پر پانی پھیرنے والے ذرا بلوچستان کے الحاق میں مولانا ابوالکلام رح کا کردار اور سقوط ڈھاکہ کے خلاف مفتی محمود رح کی جدوجہد کو بھی مطالعہ کرلیں (ویسے بنگلادیش میں اسی سقوط ڈھاکہ کے خلاف کرادر کی پاداش میں جماعت اسلامی کے بوڑھے رہنما سزائیں کاٹ رہے ہیں ) ۔

اس معتدل دینی قیادت کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ تھا کہ افغان جنگ جیسے موقع متشدد بیانیہ نے جنم لیا۔ جو کہ مختلف تنظیموں کی صورت میں پنپتا رہا۔ فرقہ واریت کی آگ نے بھی جڑ پکڑی۔ رہی سہی کسر جنرل پرویز مشرف کے دؤر میں نکل گئی، جب عالمی دباؤ پر سیکیولر پاکستان کی گونج سنائی دی۔

مختلف فرقوں کی مذہبی جماعتوں نے اس وقت بھی متحد طور پر الیکشن میں حصہ لیا۔ اس اتحاد کو سرکاری سطح پر فرقہ واریت اور تشدد کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا، پر یہ موقع بھی سیاست کے نذر ہوگیا۔

قوم پرستی بمقابلہ فرقہ پرستی:

یہاں ہم صورتحال کا دوسری زوایہ سے بھی جائزہ لیں کہ آیا مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کی جتنی گونج سنائی دیتی ہے زمینی حقائق کیا ہیں؟ میرے مطالعہ کے مطابق پاکستانی تاریخ میں اب تک فرقہ پرستی کے بنیاد پر اتنے بڑے فساد کا ذکر نہیں ملتا، جس میں مقتولین کی تعداد سینکڑوں بلکہ بیسیوں تک بھی پہنچی ہو۔

سخت اختلاف کے باوجود مختلف فرقوں کے علماء دوسرے کا نام روایتی سیاسی طنز کے بجائے حضرت، علامہ، مولانا اور پیر وغیرہ کے معزز القاب سے لیتے ہی۔ اس کے برعکس سیاسی مخالفین کا لب و لہجہ اور قومیت کے نام پر جو جو خون بہا ہے، اس کا رکارڈ بھی دیکھ لیا جائے تو یہ راز کھل جائے گا کہ امن اور احترام کے لیے کس کا کردار زیادہ ہے؟

اہل دانش کے نام پیغام :

اس سارے پس منظر کے جائزہ کے بعد اک گزارش ہے اہل دانش کے نام کہ ملکی ترقی اور امن و امان کے لیے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوے قوم کے مجموعی جذبات کا احترام کیا جائے۔ تجربہ کار اور معتدل دینی قیادت کو غنیمت جان کر اتحاد امت و ملکی استحکام میں کردار ادا کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).