کیا ہم ترقئ معکوس کا شکار ہیں؟


              

چند ہفتے پہلے محترم وجاہت مسعود صاحب نے دباؤ یا پریشر کی سائینس اور آرٹ پر روشنی ڈالی۔ اب بندہ اسی طبعی حالت کے زیرِ اثر ہے، اور تقریباً پونے دو سال بعد دوبارہ ہم سب کے لئے قلم اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

میں نہ تو ادیب ہوں، نہ دقیق مطالعہ کی پونجی رکھتا ہوں، نہ سیاسی حیوان نہ مذہبی پہلوان۔ ہاں انٹرمیڈیٹ میں ایسے اساتذہ اتفاقاً میّسر آ گئے کہ اردو شاعری کی حرف شناسی ہو گئی۔ تصوّر کریں کہ ایف ایس سی کے “اِیڈیٹْ کے بچّوں” (یہ جملہ استادِ محترم کا ہے) کو اردو شاعری پڑھانے کے لئے شور علیگ یعنی پروفیسر منظور حسین شور جیسا استادِ اجّل مل جائے تو ان کی خوش بختی نہیں تو کیا ہے؟ اسی طرح انگریزی کے لیے پروفیسر ایم آر آصف، جو خود مصنّف اور ماسٹر کلاسز کے استاد تھے، مل گئے۔ اس خوش بختی کی وجوہات پھر کبھی سہی

آمدم برسرِ مطلب، پچاس کی دہائی کے آخر میں آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو تونسہ بیراج کالونی میں پایا۔ یہ بیراج 52 کے لگ بھگ شروع ہوا والد صاحب 53 میں وہاں پنجاب اریگیشن کے ملازم کے طور پر گئے۔ اس بیراج کا ڈیزائن، تعمیر اور تکمیل کاملاً پنجاب محکمہ آب پاشی نے اپنے وسائل سے کی۔ اس زمانے کے دریائے سندھ کی وسعتوں اور طغیانیوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے، جس کے شمال میں جناح بیراج (کالاباغ کے نزدیک) کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ تربیلا، چشمہ، غازی بھروتہ ابھی دہائیاں دور تھے۔ ضلع مظفر گڑھ میں بجلی نامی کوئی شئے نہیں تھی، کوٹ ادّو میں شام ڈھلے لالٹینیں روشن ہو جاتی تھی

بیراج کالونی کے نزدیک ایک پاور ہاؤس، جو جنگِ عظیم کے مالِ غنیمت کے انجنوں سے لیس تھا، قائم کیا گیا، بعد میں جنرل موٹرز کے نئے جنریٹرز آئے تو والد صاحب جو اس کے مدارالمہام تھے، کو رات کی نیندیں نصیب ہوئیں۔ (ضلع مظفر گڑھ کے بڑے بڑے زمینداروں نے اپنے ذاتی جنریٹر رکھے ہوئے تھے)۔

بیراج کے دروازوں یعنی گیٹس کے لئے بھلوال کے نزدیک ایک بڑی ورکشاپ تعمیر کی گئی، جہاں گیٹ سسٹم بنا کر تونسہ بیراج پر لگایا گیا، مکمل طور پر اپنے وسائل کے ساتھ۔ ضمناً بتا دوں کہ یہ بیراج 58 کے وسط میں ایّوب خان صاحب کے نزول کے دنوں سے چند ماہ قبل مکمل ہو گیا۔ 59 کے شروع فیلڈ مارشل افتتاح کے لئے تشریف لائے تو سکول نے ہمیں جھنڈیوں سے پیراستہ کر کے کوٹ ادّو بیراج روڈ پر جا کھڑا کیا، جرنیلی قافلہ گزرنے کے بعد چُھٹی کر دی گئی، زندگی میں پہلی قبل از وقت چھٹی کی خوشی اور مستی آج تک یاد ہے.

اب ذرا فاسٹ فارورڈ یا تیز قدمی کرتے ہوئے دس سال آگے چلتے ہیں۔ میرے آبائی گاؤں کے نزدیک سندھ طاس منصوبے کے تحت ایک بیراج، رسول بیراج بن رہا ہے جو اٹلی کی ایک کمپنی تعمیر کر رہی ہے لیکن اس کے گیٹ لاہور میں بیکو یعنی بٹالہ انجنیئرنگ کمپنی بنا رہی تھی، یہ ریڈیل یعنی کروی گیٹ تھے جن کے لئے بڑے اور طاقتور پریس کی ضرورت ہوتی ہے، بہرحال یہ گیٹ بنا کر لگائے گئے اور پچاس سال سے زائد عرصہ سے کامیابی سے چل رہے ہیں

اب ہم مزید 45 سال آگے چلتے ہیں، ورلڈ بینک کے ایک قرضہ کی مدد سے پرانے خانکی ہیڈ ورکس کے نزدیک خانکی بیراج بنانے کا منصوبہ شروع ہوا، اتفاقاً یہ کام اس کمپنی کو ملا جس میں میں کئی سالوں سے ملازم تھا اور ابوظہبی میں مقیم تھا۔ میرے ایک انتہائی محترم سینئر نے مجھے ابوظہبی ائیر پورٹ سے سرِراہ فون کیا اور میرے پوچھنے پر بتایا کہ وہ خانکی کے گیٹس کے سلسلے میں ترکی جا رہے ہیں۔ مجھے اپنے کانوں اور یادداشت دونوں پر شک ہو گیا، میں نے عرض کی کہ ریڈیل گیٹ تو بہت عرصہ پہلے پاکستان میں بنے تھے۔ گو بیکو کا تیاپانچہ تو طویل عرصہ پہلے بھٹو دور میں ہو چکا تھا لیکن ایچ ایم سی ٹیکسلا، کراچی شپ یارڈ بلکہ ہماری کمپنی کی اپنی لاہور اور کراچی کی بڑی بڑی ورک شاپس یہ کام کیوں نہیں کر سکتیں؟ جواب منفی میں تھا۔

لاحول پڑھنے کے بعد سوچا کہیں یاداشت تو دھوکہ نہیں دے گئی؟ اپنے ایک کزن سے درخواست کی کہ رسول بیراج پر جا کر ذرا گیٹوں پر نظر ڈالے (میرے ذہن میں بیکو کی بیضوی پلیٹ جو ہر گیٹ پر لگائی گئی تھی، مُرتسم تھی)۔ جواب مثبت میں آیا، جس کے ساتھ ہی انّا للہ و انا الیہ راجعون از خود منہ سے نکل گئی، اور اپنی حالت پر رونا بھی آیا ۔

چلیں دفع کریں اور کل کی ہندوستان کی عظیم ناکامی پر رقص کریں، جیسا کہ ہمارے وزرائے بے تدبیر کر رہے ہیں، لیکن اگر مجھ سے پوچھیں تو میں دشمن کو اس کی بڑی کوشش کی تقریباً کامیابی پر مبارکباد دوں گا۔ ہم نے سپیس پروگرام سن اکسٹھ میں شروع کیا اور اب تک کیا کیا؟ پچھلے اٹھارہ سال سے سپیس سائنسدانوں کی بجائے فوج اور ایئر فورس کے افسرانِ اعلٰی(بعد از باری تعالیٰ) اس پر مستولی ہیں اللہ اللہ خیر صلّا۔ اصل سوال کا جواب باقی ہے کہ بقول اسماعیل تارہ کے ہم “ہُواں سے ہِیاں” کیسے پہنچے؟ اور بقول مصطفٰی زیدی کے

 شاید تمہیں نصیب ہو اے کُشتگانِ شب

روئے افق پہ صُبح کے آثار دیکھنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).