جانور راج: باکسر کا اختلاف اور چیخم چاخ کا کینہ


یہ بات ہضم کرنے میں مگرانہیں کچھ وقت لگا۔ ان سبھوں کو یاد تھا یا پھر انہیں لگا کہ انہیں یاد تھا کہ کیسے سنو بال ان سے آگے، بڑھ کے حملہ کر رہا تھا اور کیسے اس نے ہر موقعے پر انہیں مجتمع کیا اور بڑھاوا دیا اور کس طرح وہ ایک لحظے کو بھی نہ تھما حتیٰ کہ جانی صاحب کی بندوق کے چھروں نے اس کی پشت کو گھائل کر دیا تب بھی۔ شروع میں یہ سمجھنا مشکل تھا کہ یہ سب اس کے جانی صاحب کے ساتھ ہونے کے کھانچے میں کیسے بیٹھتا ہے۔ حد یہ کہ باکسر جو کہ شاذ ہی سوال کرتا تھا، گڑبڑا گیا۔ وہ اپنے کھر جسم تلے سمیٹ کے دراز ہوا، آنکھیں موندیں اور بڑی مشقت سے اپنی سوچوں کو مجتمع کیا۔

”مجھے یقین نہیں آ رہا“، اس نے کہا۔ ”سنوبال، ’معرکہء گاؤ تھان‘ میں بے جگری سے لڑا تھا۔ میں نے خود دیکھا۔ کیا ہم نے اس کو، فوراً بعد ’نشان الوحوش اول‘ نہیں دیا تھا؟ “
”وہ ہماری خطا تھی کامریڈ۔ جیسا کہ اب ہم جانتے ہیں۔ کہ یہ سب ان خفیہ دستاویزات میں لکھا ہوا تھا جو کہ ہم نے کھوج لی ہیں۔ کہ اصل میں وہ ہمیں ہماری بربادی کی طرف لے جارہا تھا۔ “
”مگر وہ گھائل ہوا تھا۔ “ باکسر نے کہا۔ ”ہم سب نے اسے لہولہان دوڑتے ہو ئے دیکھا۔ “

’وہ سب مکر کا حصہ تھا! ‘ چیخم چاخ چلایا۔ ’جانی صاحب کی گولی اسے صرف چھوتی ہوئی گزری تھی۔ میں آپ کو یہ سب اس کی ذاتی لکھائی میں دکھا سکتا تھا اگر آپ پڑھ سکتے تو۔ سنو بال کا ارادہ عین لڑائی میں دشمن کے لئے محاذ چھوڑ کے فرار ہو جانے کا تھا۔ اور وہ قریب قریب کامیاب ہی تھا۔ میں تو یہ تک کہوں گا کامریڈز، وہ کامیاب ہو ہی گیا ہوتا اگر ہمارے عظیم لیڈر کامریڈ نپولین نہ ہوتے۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ کس طرح عین اس وقت جب جانی صاحب اور اس کے آدمی احاطے میں آئے تھے، سنو بال یکلخت پلٹا تھا اور فرار ہو گیا تھا اور کئی جانور بھی اس کے پیچھے گئے تھے؟ اور کیا آپ کو یہ بھی یاد نہیں کہ، عین اس وقت جب ابتری پھیل گئی تھی اور سب کچھ ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا تو کامریڈ نپولین، للکارتے ہوئے آگے بڑھے تھے، ”مرگ بر انسان“ اور اپنے دانت جانی صاحب کی ٹانگ میں گڑو دیے تھے؟ یقیناً آپ کو یہ تو یاد ہو گا کامریڈز؟ ‘ چیخم چاخ ادھر سے ادھر کودتے ہوئے بنکارا۔

اب جبکہ، چیخم چاخ نے پورے منظر کا سماں باندھا تو جانوروں کو لگا کہ یہ انہیں یاد تھا۔ یہ تو انہیں ہر صورت یاد تھا کہ عین لڑائی میں سنو بال پلٹ کے فرار ہوا تھا۔ مگر باکسر کو اب بھی کچھ بے قراری سی تھی۔

”مجھے یقین نہیں آتا کہ سنو بال شروع میں ایک غدار تھا۔ “ اس نے آخر کہہ ہی دیا۔ ”بعد ازاں اس نے جو کیا وہ اور بات ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ ’معرکہء گاوئتھان‘ کے وقت وہ ایک اچھا کامریڈ تھا۔ “

”ہمارے لیڈر کامریڈ نپولین، “ چیخم چاخ نے بڑی مضبوطی سے چبا چبا کے اعلان کیا، ”وضاحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں کامریڈز کہ سنو بال روزِ اول ہی سے جانی صاحب کا پٹھو تھا۔ جی، اس سے بھی کہیں پہلے جب انقلاب کا خواب دیکھا گیا۔ “

”اخاہ، یہ دوسری بات ہے! “ باکسر نے کہا۔ ”اگر کامریڈ یہ کہتے ہیں، پھر یہ لازمی درست ہو گا۔ “

”یہ ہوئی ناں بات کامریڈ! “ چیخم چاخ چلایا مگر یہ سب نے دیکھا کہ اس نے اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے باکسر کی طرف ایک بہت ہی غضب ناک نظر ڈالی تھی۔ وہ جانے کو مڑا، پھر لمحے بھر کا تو قف کیا اور متاثر کن انداز میں جملہ ٹانکا: ”میں اس فارم پہ سبھی جھانوروں کو خبردار کرتا ہوں کہ آنکھیں بہت ہی کھول کر رکھیں۔ کیونکہ ہمارے پاس وجوہات موجود ہیں کہ ہم یہ سمجھیں کہ سنو بال کے گھس بیٹھئیے اس لمحے بھی ہمارے درمیان گھوم رہے ہیں! “

چار روز بعد، شام پڑے، نپولین نے سارے جانوروں کو احاطے میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ جب سب اکٹھے ہو گئے، نپولین اپنے دونوں تمغے سجائے (اس نے حال ہی میں خود کو ’نشان الوحوش اول‘ اور ’نشان الوحوش دوئم‘ دیا تھا) ، فارم ہاؤس سے برآمد ہوا۔ اس کے نو جسیم کتے اس کے گرد لوٹ رہے تھے اور ایسی بھیانک آوازوں میں غرا رہے تھے کہ دوسرے جانوروں کی ریڑھ کی ہڈیوں میں ٹھنڈک دوڑ رہی تھی۔ وہ سب اپنی جگہوں پہ دبک گئے، یوں لگتا تھا انہیں پہلے ہی پتا ہے کہ ان پہ کوئی آفت ٹوٹنے والی ہے۔

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج: سنوبال کی سازشیںجانور راج: انقلاب دشمنوں کا قتل اور آزادی اظہار پر پابندی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).