محسن نقوی کے نام سے منسوب مشہور دعا ”اس قوم کا دامن غمِ شبیر سے بھر دے“ میر احمد نوید کی ہے


معروف شاعر محسن نقوی کے شاعرانہ کلام کی تعریف وتوصیف میں کچھ کہنا بلا مبالغہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ان کے کلام پر تبصرے کے لیے میرا قد اور مطالعہ اہل نہیں۔ اس لیے سیدھا موضوع کی طرف آتی ہوں۔

خوب صورت اور مشہور دعا جو ہر شیعہ گھر کی مجلس میں پڑھی جاتی ہے اور بچے بچے کو ازبر ہے۔ ہمیں کبھی علم نہ ہو سکا کہ احمد کے چند دوستوں اور احمد کی کتابوں میں چھپے ہونے کے باوجود شیعوں کی اکثریت اسے محسن نقوی سے منسوب سمجھتی ہے۔ تقریباً بارہ برس قبل ہمارے کالج کے کولیگ تقوی صاحب نے اس دعا کا تذکرہ کرتے ہوئے محسن نقوی کا نام لیا، تب ہم نے وضاحت کی کہ یہ مشہور دعا احمد نوید کی ہے، اور احمد نوید کی رثائی ادب کی کتب میں موجود ہے۔ انہیں یقین نہ آیا کہنے لگے ”اس ردیف میں نوید صاحب نے لکھی ہو گی لیکن یہ دعا تو محسن نقوی کی ہی ہے۔“ ہم نے دوسرے دن انہیں کتاب لے جا کر دے دی، جس میں ”التجائے نوید“ کے عنوان سے یہ دعا چھپی ہوئی ہے، تب بھی ان کے چہرے پر تشکیک کے سائے کم نہ ہوئے۔

ہم نے گھر آکر احمد سے بات کی توحسب معمول انہوں نے کہا ”اس کیا فرق پڑتا ہے۔ میرے پاس صرف یہ ہی ایک کلام تھوڑی ہے۔“

انہوں نے یہ دعا کوئی 35 برس قبل لکھی۔ مشہور نوحہ خواں ساجد جعفری کا سالہا سال سے معمول ہے کہ وہ ہر جمعرات انچولی کی امام بارگاہ خیر العمل میں میراحمد نوید کا نام لے کر بے حد خوبصورت انداز سے یہ دعا پڑھتے ہیں۔

ابتدائی دنوں میں احمد اپنے نوحوں، سلام، منقبت وغیرہ میں اپنا تخلّص استعمال نہیں کرتے تھے۔ اس لیے غلط فہمیوں کی وجہ سے ان کا اکثر کلام کسی سے بھی منسوب ہو جا تاتھا۔ مخلص دوستوں کے بے حد اصرار پر اب وہ اپنا تخلص استعمال کرنے لگے ہیں۔

سات آٹھ ماہ قبل حلقہ اربابِ زوق کے ایک جلسے میں برسبیل تذکرہ احمد نوید کہہ بیٹھے کہ ”یہ دعا ان کی ہے۔“ بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن ایک روز ہماری ٹائم لائن پر کسی بے وقوف نے جو شاید اس وقت اجلاس میں موجود ہوگا یا کسی سے سن لیا ہو گا۔ اس نے پھبتی کسی کہ ”احمد نوید تو اس دعا کو بھی اپنا بتاتے ہیں۔“

حقیقت یہ ہے کہ واقعی اسی زمین، ردیف اور خیال کو بہت سے شعراء نے لکھا لیکن اصل اور نقل کا واضح فرق موجود ہے۔ اس وضاحت کی ضرورت اب بھی پیش نہ آتی، مگر سنا ہے کہ اب کہیں جا کے محسن نقوی کی شہادت کے کئی سال بعد ان کے خیر خواہوں نے ان کی کتاب میں یہ دعا شامل کی ہے۔

احمد نوید کیوں کہ انٹر نیٹ کی دنیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے دور رہنے کی خود ساختہ کوششوں میں کامیاب ہیں، اس لیے ان کے مقدمے لڑنے کے لیے مجھے ہی میدان میں اترنا پڑتا ہے۔

اس مضمون سے یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیں کہ اپنی تخلیق سے بے پروا، مقام سے بے نیاز یا گمنام شعراء کے کلام کو لوگ کس طرح جان بوجھ کر، لاعلمی یا بغض کی بنا پر کسی دوسرے یا خود کے نام سے منسوب کرتے ہوں گے۔

خدا احمد کو لمبی عمر دے لیکن ہماری قوم شاعر یا ادیب پر مٹی ڈالنے کے بعد ہی اس کے کام، نام اور اس کے رنگ سے واقف ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھی تو رنگ بھی ان کی اندھی عقیدت میں ایسے دھندلا جا تے ہیں، کہ تمیز ہی نہیں کر پاتے کہ جو کلام جس شاعر سے منسوب کر رہے ہیں وہ اس کے مزاج اور فکر سے ہم آہنگ بھی ہے کہ نہیں۔ شاعر کو اپنے جائز مقام کے حصول کے لیے کچھ بہت زیادہ نہیں صرف مرنا پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).