عمران خان صاحب، ہماری لاشوں کی داد رسی کریں


عمران خان صاحب، مجھے پہلے بھی ذاتی طور پر آپ سے کوئی بہت زیادہ امیدیں نہیں تھیں، اور اس کی وجہ بھی آپ ہی تھے کہ جس سٹیٹس کو کے لوگ آپ نے اپنے ارد گرد اکٹھے کر لیے تھے تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ آپ وہ کچھ کر سکتے جس کے آپ نے وعدے کیے تھے۔ مگر صرف یہ تسلی تھی کہ آپ جیسا ایماندار آدمی وزیراعظم ہوگا تو بہرحال نیچے کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آئے گی۔

وزیراعظم صاحب، آپ کے حکومت میں آنے کے بعد سے آپ کے غلط اور محلِ نظر فیصلوں پر اگر محاکمہ شروع کروں تو بحث لمبی ہو جانی ہے، اس لیے فی الحال آپ کی توجہ صرف اور صرف آپ کی اپنی کہی بات کی طرف دلاتا ہوں کہ انصاف کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، معاشرے میں ظلم اور نا انصافی کے سامنے ڈٹ جانا لازمی ہے۔ حضور والا، آپ سے صرف یہ درخواست ہے کہ کیا آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی حکومت میں مظلوم کے ساتھ انصاف ہو رہا ہے؟

ساہیوال کے اندوہناک واقع پر جس میں چھوٹے بچوں کے سامنے پولیس نے ان کے بے گناہ ماں باپ اور بڑی بہن کو گولیوں سے بھون دیا، اور آپ نے قطر سے واپسی پر انصاف کی یقین دہانی کرائی تھی، وزیراعظم صاحب کہاں گیا وہ وعدہ کیا گیا انصاف؟ عمران خان صاحب وہ بچے ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں، ان کے سروں کا سایہ اور ان کی جنت تو آپ کے پنجاب کی پولیس نے چھین لی مگر کم از کم ان پولیس والوں کو عبرت کا نشان بنا کر کسی اور معصوم پھول کی جنت کو جہنم بننے سے بچا سکتے ہیں؟

وزیراعظم صاحب، صلاح الدین ایوبی کی تشدد زدہ لاش دیکھ کر آپ کو رات کو نیند کیسے آتی ہے؟ سر، آپ تو اس خلیفہ راشد کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے جو کہتے تھے کہ فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو میں قیامت کے روز جواب دہ ہوں گا۔ جناب والا، وہ مثالیں صرف تقریروں کے دوران ہمارے خون گرمانے کے لئے تھیں یا آپ واقعی کوئی نیت بھی رکھتے تھے انصاف دلانے کی؟

وزیراعظم صاحب، پولیس کے نظام کو ٹھیک کریں، غلط پریس کانفرنسیں کرنے والے سرکاری افسران کو نکال باہر کریں، پوسٹ مارٹم کی غلط رپورٹ دینے والے ڈاکٹروں کے لائسینس منسوخ کریں، ان مجرموں کو عبرت کا نشان بنا دیں ورنہ ہم جیسے آپ کے خیر خواہ اگر آپ سے بھی مایوس ہوگئے تو پھر ہم نے پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہو جانا ہے۔ ہمارے دل میں جو امیدیں انصاف کے بول بالے کی آپ نے جگائیں تھیں خدارا ان وعدوں کا پاس کیجئے۔ لازمی نہیں کہ آپ ان حماروں سے ہی مسئلے کا حل پوچھیں جو مسئلے کی اصل وجہ ہیں، ان مسائل کے حل کی تجاویز آپ صلاح الدین ایوبی کے باپ اور ساہیوال میں بچ جانے والے بچوں سے پوچھیں، عوام الناس سے پوچھیں جو ہر وقت پولیس کی بدمعاشی سہتے ہیں، ہم سے پوچھیں جو دو لفظ لکھ لیتے ہیں، مگر خدا کے لئے، ہمارے ہاتھ بندھے ہیں آپ کے سامنے، ہمیں ان جانوروں کے تشدد سے بچائیں، ہمیں پولیس کے عقوبت خانوں سے بچائیں، ہمیں مرنے سے بچائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).