بلوچستان کے صحافی طالبعلم کی فریاد


بلوچستان کی دھرتی ثقافتوں کی امانت دار جانی جاتی ہے۔ آج بھی اس سر زمین پر بلوچ، پشتون، ہزارہ اورپنجابی بہت سی اقوام و قبائل اپنی ثقافتوں، رواجوں اور تاریخ کو سمیٹے بیٹھے ہیں۔ ذرا تاریخی پنوں کو پلٹ کر دیکھا جائے تو صوبہ کے حالات بھی گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ صوبہ کے دارالحکومت کے موسم کی مانند یک دم بدلتے رہے ہیں۔ جس نے بلوچستان میں بسنے والے ہر شخص خواہ ملازم ہو یا طالبعلم، سیاست دان ہو یا صحافی غرضیکہ تمام شعبو ں سے منسلک افراد پر اپنے اثرات ظاہر کیے ہیں۔

اور ان کے بارے میں بلوچستان کے صحافیوں سے بہتر بھلا کون بتا سکتا ہے۔ اور ویسے بھی بلوچستان کی صحافت تو اپنی ایک وسیع تاریخ رکھتی ہے جس پر کچھ لکھنے کی مجھ جیسے ناقص العلم کو جسارت نہیں کرنا چاہیے تھی مگر جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس پر کچھ نا لکھنا شاید اس مقدس پیشہ سے نا انصافی کے مترادف ہوتا اور بھلا پھرروز آخرت کیا جواب دیتا۔ میں اپنے استاد ارشاد مستوئی کو، چشتی مجاہد کو اور ان تمام 38 سے زائد صحافی دوستوں کو جوبلوچستان میں صحافت کا علم اٹھائے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے، خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ان میں سے کسی بھی صحافی کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی، دشمن تھا تو صرف ان کا منصفانہ مزاج جو صحافت کے لئے ناگزیر تصور کیا جاتا ہے یا پھر صحافیوں کو درپیش سیکیورٹی خطرات جواب بھی چوبیس گھنٹے بلوچستان کے ایک صحافی کے سر پرکسی گدھ کی طرح منڈلاتے رہتے ہیں۔

بلوچستان کے صحافی آج بھی سر پر کفن باندھے موت اور حیات کی کش مکش میں صحافتی میدان میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ یہ ذمہ داریاں نبھاتے وقت آج بھی یہاں ایک صحافی کوخبر کے حصول کے ساتھ ساتھ یہ خطرہ بھی لاحق رہتا ہے کہ اس کی فیملی تو ٹھیک ہے نا۔ خبر فائل کرتے ہوئے آج بھی صحافی سوچتا ہے کہ کہیں ایسا نا ہو کہ اس خبر کی نشرو اشاعت سے اس کے خاندان کو کسی دوراہے سے گزرنا پڑے۔ بلوچستان میں کام کرنے والے صحافیوں کے بچے آج بھی بابا کے بخیر و عافیت گھر آنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ ان نامساعد حالات کے باوجودبلوچستان کی صحافی برادری نے اپنے قلم سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

خبر کے حصول اور عوام کو باخبر رکھنے کی خاطر کئی صحافی موقع پر زخمی اور شہید ہوئے۔ ہاں مانا کہ مختلف مقامات پر غلطیاں صحافیوں سے بھی سرزد ہوئی ہیں جس پر ناصرف سرکار بلکہ این جی اوز اور ہر عام و خاص صحافتی اخلاقیات کا درس دینے لگ جاتے ہیں لیکن اس پریشر کا ذکر کوئی نہیں کرتاجو میڈیا مالکان اور ڈائریکٹر نیوز کی طرف سے خبر کے حصول کے لئے صحافی پر ڈالا جاتا ہے، اب بیچارہ مرتا کیا نا کرتا کے مصداق موت کے منہ میں جا پھنسا۔ نوکری بھی تو کرنی تھی ورنہ آگے بچوں کے اسکول کی فیس کہاں سے آئے گی، ماں باپ کے لئے ادویات کے پیسے کہاں سے ملیں گے، یہی تو ایک کمزوری ہے تنخواہ دار صحافی کی جس کو میڈیا مالکان کیش کرتے ہیں۔ کیوں کوئی شخص، این جی او یا ادارہ جا کر میڈیا مالکا ن اور دفترکے اعلی افسران کو اخلاقیات کا سبق نہیں پڑھاتا؟ کیوں انہیں کوئی اعلیٰ سطح کی میڈ یا ٹریننگ دے کر نہیں بتایا جاتا کہ صحافت کے قوائد و ضوابط کیاہوتے ہیں؟ ایک انسانی جان کی قیمت کیا ہوتی ہے؟

یہی نہیں بلوچستان کے صحافی تو مختلف سیاسی اور قبائلی دباؤ برداشت کرتے، مختلف قوتوں کا جانفشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے احسن طریقے سے صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے آئے ہیں۔ بلکہ بعض چینلز کی اعلیٰ سطح پر جانبدارانہ صحافت کے نتائج بھی صحافیوں کو ہی عوام سے بھلا برا سن کر بھگتنے پڑتے ہیں۔ جبکہ ایک رپورٹر، کیمرہ مین یا فوٹوگرافر کا اس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہاں یہ بات تو اخباراور چینل مالکان کو بھی پتا ہے لیکن پھر بھی بلوچستان میں کام کرنے والے صحافیوں کے لئے نا تو دفتر کی جانب سے کوئی حفاظتی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور نا ہی شہید ہونے والے صحافیوں کے خاندانوں کے لئے کوئی امداد۔۔۔ حد یہ کہ بعض اوقات تومالکان صحافی کو اپنا ملازم ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں تو امداد تو دور کی بات ہے۔

شاید اس کی ایک وجہ اس مقدس پیشہ میں کاروباری حضرات کی انٹری ہے جنہوں نے صحافت کو بھی اپناکاروبار چمکانے کا ایک ذریعہ بنا رکھا ہے اورانہیں بھلا کیا پتا صحافت ہوتی کیا ہے؟ صحافتی اقدار کیا ہوتا ہے؟ صحافتی اخلاقیات کے کیاتقاضے ہیں؟

انہیں اگر یہ سب جاننا ہو تو جائیں یہ جاکر ذرا خان صمد خان کی صحافتی خدمات پر نظر دوڑائیں یافیض احمد فیض اورحبیب جالب کی زندگی کو سامنے رکھیں کہ جنہوں نے اصولی صحافت کے پرچارکے لئے کوڑے کھائے اور قید و بند کی کڑی صوبتیں جھیلیں۔ ان کے نزدیک صحافت واقعی ایک مشن تھا۔ وہ کاروبار اور خبر یت میں فرق سمجھتے تھے لیکن آج کے میڈیا مالکان تو خبریت کو چھوڑ کر ریٹنگ کی دوڑ میں لگے ہیں اوراشتہارات کی دنیا میں انہیں بلوچستان کہیں نظر ہی نہیں آتا۔

البتہ ان کا ایک احسان توماننا پڑے گا کہ جب بھی یہاں کوئی دھماکہ ہوتا ہے توچوبیس گھنٹے میں سات سے دس منٹ تودے ہی دیتے ہیں۔ اور نہیں تو ٹکر تو چل ہی جاتے ہیں۔ خیر بلوچستان میں صحافت اور صحافیوں سے اس قسم کے رویوں کے بارے میں مختلف پلیٹ فارموں پر لمبے عرصے سے طویل بحث و مباحثے ہوئے چلے آرہے ہیں لیکن یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہی نہیں۔

اب توبلوچستان سمیت پورے پاکستان کے صحافیوں پر ڈاون سائزنگ کا بم بھی گرایا جاچکا ہے۔ ہر طرف چرچے ہیں کہ کوئی حکومت کی طرف سے سرکاری اشہارات کی بندش کا معاملہ ہے لیکن چینلز مالکان کے ذرائع آمدن تواور بھی بہت ہیں تو پھر کیا ادار ہ کے ادنیٰ سے ملازمین کو تنخواہیں دینا ان کے نزدیک اس قدر سنگین مسئلہ کی صورت اختیار کر گیا کہ ملازمین ہی فارغ کردیے جائیں۔

دیگر صوبوں کی نسبت تو بلوچستان کے صحافیوں کی یومیہ آمدن بھی بہت کم ہے۔ انشورنس اور دیگر مراعات بھی نہیں ہیں۔ اب بھلا یہ جائیں تو جائیں گے کہاں؟ کیمرہ مین، انجینئر اور ڈرائیور حضرات تو چلو کسی پرائیوٹ فرم کو جوائن کرلیں لیکن بیچارہ رپورٹر صحافی کہاں جائے جس کو صحافت کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ سونے پر سہاگا یہ کہ پاکستان میں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں جامعات سے طلبہ شعبہ ابلاغیات کی ڈگریاں لے کر فارغ ہو رہے ہیں۔

ہم نے بھی سوچا تھا شعبہ ابلاغیات و صحافت میں ایم اے کی ڈگری کرکے کسی ادارے میں رپورٹر لگ جائیں گے لیکن حالات دیکھ کر سچ بتائیں تو اپنا مستقبل بھی کو ئی زیادہ روشن نظر نہیں آتا۔ چلوکچھ ساتھی طالبعلم تو کسی نا کسی سرکاری محکموں میں انفارمیشن افسر، پبلک ریلیشن افسر یا کسی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں لیکچرارلگ جائیں گے کچھ کو سرکاری نوکری مل جائے لیکن ہم جیسے باقی نیم صحافی کہاں جائیں گے؟ پروڈکشن کی طرف چلے جاتے لیکن صوبہ میں تو کسی پرائیویٹ پروڈکشن کا بھی نام و نشان نہیں ہے تو بھلا ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ اور ہمارے بعد آنے والوں کی صورتحال ہم سے بھی گھمبیر ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).