جانوروں کی کھالوں پر سیاست کے بعد اب کچرا سیاست


پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کچرا ایک بار پھر بحث موضوع ہے۔ کراچی میں پہلے جانوروں کی کھالوں اور لوگوں کی زندگیوں پر سیاست ہوتی تھی، اب کچرے پر سیاست ہو رہی ہے۔ ایک طرف کچرا اٹھانے پر سیاستدانوں میں لفظوں کی جنگ اور الزام بازی کا سلسلہ جاری ہے، دوسری طرف ڈرامے باز سیاست بھی نئے روپ و رنگ سے ابھر رہی ہے۔

کچھ دن قبل کچرے کے معاملے پر میئر کراچی نے وہ انداز اپنایا جو کہ اکثر فلموں میں دکھائی دیتا ہے۔ میئر کے اس سٹنٹ پر سب تو حیران ہی رہ گئے مگر اس کو باس کہنے والا بھی پریشان ہو گیا کہ رات کے کچھ گھنٹوں میں ایسا کیا کیا کہ اچانک گاربیج پروجیکٹ ڈائریکٹر کے عہدے سے معطل کیا گیا۔

میئر کراچی وسیم اختر نے کراچی کے کچرے کے مسئلے پر بڑے ہی سنجیدہ انداز میں نوٹفیکیشن جاری کر کے سربراہ پی ایس پی مصطفی کمال کو گاربیج پروجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ کل صبح آفس آئیں اور مل کر کچرے کے مسئلے کا حل نکالتے ہیں۔ مگر مقرر کردہ ڈائریکٹر آفس بھی نہیں پہنچا تو اسی کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ مصطفی کمال نے اختیارات سے بالاتر کام کیا، جس سے ادارے میں اعتراضات پائے گئے۔

پتہ نہیں کہ وہ اعتراضات واقعی میں کچرا اٹھانے پر غیرسنجیدگی کے بارے میں تھے یا آپس کے سیاسی اور ذاتی مفادات کے۔

ادھر معطلی کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ ”پتہ نہیں کے کیا وجہ تھی جو معطل کیا گیا، مسئلہ اختیارات کا نہیں بلکہ کرپشن کا ہے۔“ اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ ”کرپشن کے سبب کچرا نہیں اٹھایا جاتا۔ باس کے ساتھ چار اضلاع کے چیئرمینوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائے۔“

خیر ہم بھی ان لوگوں کی بیان بازی اور الزامات پر نہیں جاتے، اب آتے ہیں نوٹیفکیشن پر، سوال یہ ہے کہ 24 گھنٹوں کے اندر دوسرا نوٹی فکیشن جاری کرکے یہ لوگ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ یہ عمل کراچی باسیوں سے ایک مذاق، قانون سے بالاتر اور بہت غیرسنجیدہ روش ہے۔

کسی بھی میئر کی طرف سے ایک دن نوٹی فکیشن جاری کرنا، اور اگلے دن واپس لینے والا عمل سنجیدہ طریقہ کار نہیں ہے۔ میئر کا یہ قدم کراچی کے مڈل کلاس کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اور اختیارات کا غیرقانونی استعمال سیاسی منافقت اور پوائنٹ اسکورنگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔

کراچی میں سیاسی اسکورنگ اور ذاتی، گروہی مفادات کے لیے جو کچھ کیا گیا اس کی ایک تاریخ ہے۔ کس طرح کراچی کے امن کو تاراج کیا گیا۔ حتیٰ کہ ماضی والی سیاست کا اب بھانڈا پھوٹ چکا ہے، مگر یہ لوگ اس طرز سیاست سے گریز نہیں کر رہے۔ سنجیدہ اور قانونی بنیادوں پر سیاست کرنے کے بجائے ڈرامہ باز سیاست کے ذریعے کراچی والوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں اب تک جاری و ساری ہیں۔

اس بات پر کوئی دو رائے نہیں، اس وقت بلدیاتی لحاظ سے کراچی کئی مسائل کا شکار ہے۔ جن میں سے سب سے بڑا مسئلہ کچرے کو شہر سے باہر منتقل کرنے کا ہے۔ حکومت سندھ بھی کچرا اٹھانے پر اربوں روپے خرچ کر چکی ہے، مگر وہ بھی ذمہ داریاں نبھا نہیں سکی۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی صفائی مہم کا آغاز کیا، چندہ اکٹھا کیا، مگر نتائج کیا نکلے؟ عملی اقدامات کی بجائے بیانات، الزامات، سیاسی اسکورنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ کسی بھی سیاستدان کی ترجیح سنجیدہ بنیادوں پر کراچی کے بڑے مسئلے کو حل کرنا نہیں ہے۔

کراچی کے چھ میں سے چار اضلاع میں دو چینی کمپنیوں کو کچرا اٹھانے کا ٹھیکا دیا گیا تھا۔ جب کہ باقی دو اضلاع میں میونسپل کارپوریشنز کام کر رہی ہیں۔ چینی کمپنیوں کو اوسطاً فی ٹن 30 ڈالر دیے جارہے تھے مگر ادائیگیوں کے باوجود چینی کمپنیاں اطمینان بخش کارکردگی نہ دکھا پائیں۔ جس کے بعد چینی کمپنیوں سے معاہدہ ختم کیا گیا۔ اور کراچی کے باسی اسی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان لوگوں کی زندگیوں میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کچرے پر سیاست کرنے کے بجائے کراچی میں سیاست کرنے والی ساری پارٹیوں اور شہری اداروں کو ایک صفحے پر آکر سچائی سے عملی اقدامات اٹھائے جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).