میں کاٹھی شہزادی شارلٹ اپنے ننہال لنڈے کی عاشق


گذشتہ ڈیڑھ دو سالوں سے ایک تصویر مجھے مسلسل ہانٹ کرتی ہے۔ یہ مجھے ایک ایسی گم گشتہ دنیا میں لے جاتی ہے۔ جو اب کہیں میرے خوابوں اور یادوں میں دفن ہے۔ یہ آنکھیں ہی نہیں بھگوتی جذبات کا طوفان بھی اٹھاتی ہے۔ کوئی شدت سے یاد آنے لگتا ہے۔ جب بھی یوٹیوب کا بٹن کلک ہوا۔ سامنے ایک پیارا سا، معصوم سا، سنجیدہ سا، قدرے پھینی سی ناک والا چہرہ نمودار ہوتا ہے۔ ہلکی آسمانی زمین پر ذرا تیز رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھولوں والا فراک پہنے جس کی باڈی پر چپہ بھر اسی رنگ کی سموکنگ کی کڑھائی اُسے دلکش ہی نہیں کلاسیک بھی بناتی ہے۔ سنہری بالوں میں ربن کا بینڈ ہے۔ پاؤں میں سفید جرابیں اور نیلے جوتے ہیں۔ بھلا یہ کون ہے؟ شہزادی شارلیٹ ہے یہ۔ موجودہ ملکہ برطانیہ کی پڑپوتی، شہزادی ڈیانا کی پوتی، کیٹ اور ولیم کی بیٹی۔ اب کوئی پوچھے کہ میری اس تصویر سے کیا نسبت ہے؟

”ارے بھئی ہے نا“۔ میں جانتی ہوں آپ نے کہنا ہے لو کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ شاہی خاندان کی بچی کاتم جیسی فقیر فقری سے کیا واسطہ اور تعلق۔ پر جناب ذرا صبر کریں۔ پس منظرمیں کہانی ہے ایک۔ سُناتی ہوں آپ کو۔ تو وقت یہی کوئی 1950 اور 1951 کا ہے۔

مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھرکی مضافاتی بستیوں سے اٹھ کرآنے والے میرے گھرانے کی جٹی مٹیار عورتوں کو جو رشتے ناتوں کی گنجل سنگلیوں میں ایک دوسری سے یوں پیوست تھیں کہ پھوپھیاں ممانیاں بھی ہیں اور چچیاں سگی خالائیں بھی۔ اور الاماشاء اللہ سب کی سب تیز طرّار، جھانسی، کانپور، لکھنو اور دلّی بھائیوں اور شوہروں کی ملازمتوں کے سلسلے میں دیکھے ہوئے، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوئے یہ ڈشکریاں قصّے کہانیوں اور سیر سپاٹوں کی دلدادہ جب لاہور جیسے قدیم اور تاریخی شہر میں آکر بسیں تو انہوں نے سب سے پہلے سیاہ لیڈی ہملٹن کے برقعے سلوائے۔

اُنہیں اوڑھ اتواروں کوشوہروں اور بچوں کے ساتھ تانگوں میں لد لدا کرتاریخی جگہوں پرجانا اپنا معمول بنالیا۔ کبھی شالامار باغ جا دھمکتیں۔ کبھی دلی دروازے بھاٹی گیٹ اور رنگ محل کی یاترا کر آتیں۔ ساون کے سہانے اور رم جھم برستے دنوں میں گڑ کے میٹھے اور نمکین پوڑوں اور آموں کی پیٹیوں کے ساتھ مقبرہ نورجہان اور جہانگیر پر ڈیرہ جماتیں۔ کسی اتوار لاہور اسٹیشن سے چھک چھک کرتی گاڑیوں میں بیٹھ کر شیخوپورہ جا اترتیں وہاں سے ہرن مینار پہنچتیں۔ سار ی دیہاڑی سیر سپاٹوں میں گزار کر گھر وں میں واپس آکر اگلے کئی دنوں تک اس شہر کا کانپور، جھانسی اور دلی سے مقابلہ ہوتا۔ پھر کہیں اندر کی گہرائیوں سے ٹھنڈی آہیں نکال کر کہتیں۔

 ”ہائے دیس کا تو مقابلہ ہی نہیں۔ ایسی آہیں اور باتیں وہ کبھی اپنے شوہروں کے سامنے نہ کرتیں کہ انہیں لعن طعن کا ڈر ہوتا کہ گھر کے مرد پکے مسلم لیگی تھے کہ جنہوں نے اپنے گاؤں کے اسی اسی سال کے بوڑھوں کو اپنی کمروں پرلدد کوسوں کا پینڈا مارا تھا اورپولنگ اسٹیشنوں پر اُن کے پاکستان کے لئے ووٹ ڈلوائے تھے۔

ان ڈشکریوں کے لئے اپنے کسی عزیز کی عیادت کے لئے پانچ چھ کو س پر واقع میو اسپتال پیدل جانا تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔

پھر ایک دن ان پینڈو عورتوں نے ایک عجیب سی ایکٹویٹی کی۔ یہ بہار کے دن ہی تھے۔ جب انہوں نے چھوٹے بچوں کو بڑے بچوں کی تحویل میں دیا۔ چھت پر ہولیں بھوننے اور کھانے کے عمل میں انہیں مصروف کیا اور خود بُرقعے اوڑھ کر کہیں چلی گئیں۔

شام ڈھلے جب میں جو پانچ چھ سال کی بچی تھی نیچے اُتری۔ مجھے محسوس ہوا جیسے گزشتہ سال کی آسمان کے سینے پر دیکھی ہوئی قوس و قزح ہماری انگنائی میں اُتری ہوئی ہے۔ فرش پر ریشمی کپڑوں کابازار سا بکھرا ہواتھا۔ خوشگوار حیرتوں کے ساتھ میں نے پلکیں جھپکا جھپکا کر انہیں اُٹھا اُٹھا کر دیکھا۔ لمبی لمبی فراکیں، چھوٹے چھوٹے گھگھرے، اُن پر ہاتھ پھیرا۔ یوں لگا جیسے ہاتھ تو کہیں مکھن پر پڑے ہوں۔ جیسے کچی ملائی ہو اُن کے نیچے۔ سر سر کرتے پھسلتے دور تک چلے گئے تھے۔

”یہ ادھر میری طرف کرو۔ لو یہ تم نے خریدا تھا۔ “ جیسی آوازوں کے ساتھ اس سارے ڈھیر کی بندر بانٹ ہوگئی تو میری چنبیلی کی سی رنگت والی اماں اپنے حصے کا مال اُٹھاکر کمرے میں لے آئی۔ شوق و اشتیاق کا ایک جہان اپنی آنکھوں میں سموئے میں ان کے پاس بیٹھ گئی تھی۔ تب ایک تھیلے میں سے انہوں نے ایک فراک نکالا۔ اتنا خوبصورت، نیا نکور، آسمانی زمین پر نیلے چھوٹے چھوٹے پھولوں والا۔ باڈی پر اسی رنگ کی چپہ بھر سموکنگ۔ ا ماں نے تھیلے سے سفید جرابوں کا جوڑا نکالا اور ساتھ میں جوتوں کا جوڑا بھی۔

آج سوچتی ہوں وہ فراک وہ جرابیں وہ جُوتے یقینا کسی شہزادی یا شاہی فانوادے کی کسی بچی کے ہو ں گے کہ ستتر سال بعد بھی رائل گھرانہ آج کی شہزادی کو من وعن اسی رنگ ڈھنگ کے کپڑے پہنا رہا ہے۔ میری ماں کے دل میں کیا تھا۔ اگلے دن اس نے مجھے نہلایا۔ وہی فراک پہنایا۔ اُسے دھویا بالکل نہیں۔ وہ اچھا زمانہ تھا۔ چیزیں بھی خالص تھیں اور لوگوں کے دل بھی خالص تھے۔ جرابیں پہنائیں بوٹ چھوٹے تھے۔ امّاں نے چھری سے پچھلے حصّے کو کاٹ دیا اور پاؤں میں سلیپروں کی طرح پہنا دیا۔ بالوں میں کنگھی کی۔ ٹیڑھی مانگ نکالی۔ پٹیاں بنائیں۔ کلپ لگائے اور میرا ماتھا چوم کر بولی۔ ”میری شہزادی۔ “ کالی کلوٹی یہ لڑکی اپنی ماں کی شہزادی ہی تھی نا۔

بس تو یہی وہ دن تھے جب لنڈے سے میرا وہ تعلق اور ربط استوار ہوا جو آنے والے وقتوں میں ہڈیوں اور گوڈوں میں بیٹھا اور جو عشق بنا۔ میڑک تک تو جوماں نے پہنایا۔ میں نے پہنا۔ پر کالج جا کر پر پھوٹے۔ مصنوعی جیولری، سچے موتیوں، نایاب ونادراشیاء اور بہترین کپڑے کی لنڈے کی زیر زمین دکانیں سبھی میں نے کھوج لیں۔ کالج میں میرے سوئیٹروں انتہائی قیمتی شفون کے ڈوپٹوں اور قیمتی قمیضوں کی دھوم تھی۔

آغاز میں توکوئی میری قیمتی قمیض یا سوئیٹر کو شانے سے چٹکی میں پکڑ ”کرارے یہ کہتے ہوئے اُف بھئی کس قدر شاندار ہے۔ کہاں سے لیا ہے؟ “ جیسا استفسار کرتا تو میں بڑی سچ پتری بنتے ہوئے آنکھوں میں معنی خیز مسکراہٹ کی چمک بھر کرابروں اورکویوں کو ٹھمکا لگاتے اور دائیں بازو کو پیچھے کی جانب لمبا سا جُھلا ردیتے ہوئے ایک خفیہ اشارہ دیتی۔ جسے سمجھ کر مخاطب زور سے ٹھٹھا لگاتا۔

پر پھر میں نے جانا کہ یہ توکھوتا کھوہ میں ڈالنے والی بات ہے۔ اسی لئے یونیورسٹی کے زمانے میں یورپ کے مختلف ملکوں میں میرے بے شمار چچا ماموں سٹیل ہوگئے تھے۔ جن کی میں بڑی لاڈلی اوردُلاری بھانجی بھتیجی آئے دن ان کی جانب سے تحفے وصول کیا کرتی۔

ڈھاکہ یونیورسٹی قیام کے دوران ایک بار جب میں اخبار خواتین کے لئے گورنر احسن کی بیگم کو انٹرویو کرنے گئی۔ مسز احسن نے میری قمیض کے کلر کمبی نیشن اور کپڑے کی بے حد تعریف کی تو میں نے شکریہ کہتے ہوئے دل میں کہا۔

”لوبھئی قیمت وصول ہوگئی اس کی تو۔ “

یاد آیا تھا۔ ”خدایا“ کس قدر تکرار ہوئی تھی دکاندار سے۔ میری طرف سے پیش کردہ قیمت پروہ دیدے گھماکر بھناتے اور مجھے ایک طرح پھٹکارتے ہوئے بولا تھا۔

”بابا معاف کرو۔ بھیجا نہیں چاٹو۔ آگے جاؤ۔ تم کو کچھ معلوم نہیں کپڑے کا۔ “

میں بھی اول نمبر کی ڈھیٹ ہڈی تھی۔ بحث کرتے ہوئے دل میں اُسے صلواتیں سناتے ہوئے ”کمبخت سُور کا بچہ۔ تم سے تو زیادہ پہچان ہے مجھے۔ جانتی نہ تو تیری دو دوٹکے کی باتیں سُنتی۔ “ جیسی بحث آج بھی بے اختیارلبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).