تھرپارکر کا سفر


تھر پارکر۔ یہ نام سن کر بھوک، ننگ، افلاس، غربت، مدقوق چہرے، لاچار جسم، دھول، خاک، وحشت اور ایک یاسیت کا خاکہ ابھرنے لگتا ہے ذہن میں آنکھیں خود بخود اپنے آپ سے نظریں چرانے لگتی ہیں۔

بہت مشکل سے تقریباً بالجبر میں نے خود کو تھرپارکر کے سفر کے لیے تیار کیا۔ کراچی سے انڈس ہائے وے پر گھارو سے ہوتے ہوئے سجاول سے کتراتے ہوئے بدین پہنچا۔ ایک ہوٹل پر چائے پی، تھوڑا سستانے کے بعد سفر دوبارہ شروع کیا۔ مٹھی کا راستہ آتے آتے سڑک کے دونوں طرف ریگستانی ٹیلوں کے دور تک پھیلے مسحور کن نظاروں نے مجھے مہبوت سا کر دیا۔

فضاء میں ایک عجب سرمستی تھی۔ جیسے آہستہ آہستہ آپ کسی سحر میں مبتلا ہو رہے ہوں۔ مٹھی پہنچ کر کیفے تھر پہ دوپہر کا کھانا کھایا اپنے دیرینہ دوست اور میزبان پرتاب شیوانی سے ملاقات کی اور اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دیا۔ پرتاب کی محبت اور مہمان نوازی میں تھر کی وضع داری جھلکتی ہے۔

ہم وہاں سے گڈی بھٹ پہنچے۔ کیا خوبصورت منظر تھا، وہاں سے پورے مٹھی شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ مجھے دامن کوہ پر واقع منال ریسٹورنٹ سے اسلام آباد کا منظر یاد آ گیا۔

اب یہاں سے تھرپارکر کا حسن تہہ بہ تہہ مجھ پر کھلتا چلا گیا۔ ہم مٹھی سے اسلام کوٹ روڈ اور وہاں سے نگرپارکر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں صدیوں پرانا تاریخی گوڑی مندر دیکھا۔ وہاں سے آگے ماروی کے کنویں کی سیر کی اور وہاں لوک فنکاروں سے مقامی موسیقی کا فیض حاصل کیا۔

جوں جوں ہم نگرپارکر کی طرف بڑھتے رہے موسم نے انگڑائی لی اور ہلکی بارش نے ہر طرف رومانوی کیفیت طاری کر دی۔ راستے میں رن کچھ کی سفید ہوتی ہوئی سرزمین سے گزرے بہت حسین منظر تھا۔

نگرپارکر میں داخل ہوئے تو کنوجر کے پہاڑی اور اطراف کی زمین سبزی میں لپٹی ہوئی جنت ثانی کا منظر پیش کر رہی تھی۔ میں دم بخود اس حسین صحرا کو دیکھتا رہ گیا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کیا صحرا اس قدر خوبصورت ہو سکتا ہے۔ دفعتاً میری نظر مور کے ایک جھنڈ پر پڑی جو اپنے پر کھولے محو رقص تھے جیسے مجھے اپنے دیس میں خوش آمدید کہہ رہے ہوں۔ مجھے اس حسین صحرا کا حسن بیان کرنے میں الفاظ کے قحط کا سامنا ہے۔

میرا ابتدائی تاثر جو اخبار اور برقی میڈیا کی وجہ سے انتہائی افسردہ اور دلگرفتہ سا تھا یہاں آکر بالکل زائل ہو گیا۔ یہاں کے ملنسار، غریب مگر خوددار لوگ، یہاں کے لوک فنکار، یہاں کی ثقافت، تاریخی حیثیت، تاریخی مقامات سب کے سب دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سفر میری زندگی کا حسین سفر تھا جس نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔

رم جھم میگھا برسا کرے
مور پر کھولے رقص کرے
تم آؤ تو میرے دیس

ہریالی کی چادر اوڑھے
میرے پہاڑ کھڑے
تم آؤ تو میرے دیس

ہر چہرہ شاداب ہوا
کیسا صحرا سیراب ہوا
تم آؤ تو میرے دیس

اب کے ساون میں
مستی ہو آنگن میں
تم آؤ تو میرے دیس

یہ دیس کیسا دیس ہے
رنگین اس کا بھیس ہے
تم آؤ تو میرے دیس

تم آجاؤ تو فضا جلترنگ
ہر سو پھیلے خوشی کا رنگ
تم آؤ تو میرے دیس

بس تم آؤ میرے دیس
ایک بار دیکھو میرا دیس
تم آؤ تو میرے دیس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).