”ٹوڑی کی روایت“ ایک تعارفی جائزہ



علمِ موسیقی کے طالبعلوں کی علمی پیاس کو بجھانے کے لئے حال ہی میں ”ٹوڑی کی روایت“ کے نام سے ایک کتاب چھپی ہے۔ اس کتاب کی تحقیق و تصنیف جناب پرویز پارس نے کی، ترتیب وتالیف عائشہ علی نے اور اسے لاہور سکول آف اکنامکس نے چھاپاہے۔ ہمیں ایسی ہی کتابوں، محققین اور مواد کی ضرورت بھی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر پرویز پارس صاحب اور ادارہ لاہور اسکول آف اکنامکس یقیناً داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ کتاب کا تعارف پیش کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس بات کو ملحوظ خاطررکھا جائے کہ اس کتاب اور اس جیسی ہی کتابوں اور تحقیقی و تصنیفی کاوشوں کی ضرورت کیوں ہے۔

ہمیں اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ اس میں شک نہیں کہ تقسیمِ پاک و ہند کے بعد ہمیں بہترین گائک ملے۔ اولین چار دہائیوں میں کئی بڑے گائیکوں کے نام سامنے آتے ہیں۔ ہمارے یہ باکمال گائک نہ صرف پاکستان کا فخر، بلکہ موسیقی کی روایات کے امین بھی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک تشنگی بھی ہمارے حصہ میں آئی اور وہ ہے قابل اور سنجیدہ، علمِ موسیقی کے محققین وعالمین کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہی۔ علمِ موسیقی کے نامستند و نامعتبر ماہرین ومحقیقین نے علمِ موسیقی کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے۔

گا ئک حضرات ہی ماہرینِ موسیقی بھی سمجھے گئے حالانکہ موسیقی میں گائک کا درجہ الگ ہے اور ماہرین موسیقی میوزیکولوجسٹ کا کام اور، گائک حضرات نے خود کو گائک ہونے کے ساتھ ساتھ میوزیکولوجسٹ بھی سمجھا اور جی بھر کے من مانی کی۔ دوسری طرف کج فہم ماہرینِ موسیقی نے علمِ موسیقی کی تحقیق و ترویج میں خوب لاپروائی برتی۔ تحقیق میں کوتاہی، من گھڑت تاویلیں، سہل پسندی اور علمی سچائیوں سے چشم پوشی کی وجہ سے موسیقی میں ابہام اور الجھنیں کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئیں۔

راگوں میں قواعدی اغلاط اور اسلوب و گرائمر کی من مانی توجیح و تشریح نے موجودہ موسیقی کی شکل ہی تبدیل کر دی ہے۔ اس ابہام کے ذمہ داروں میں بڑے اور نمایاں گھرانوں کے نمائندہ گائیکوں، موسیقاروں اور کلاسیکی موسیقی کے ماہرین کا ہاتھ ہے جنھوں نے کم علمی، اناپرستی اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ درج بالا نظریات کی حمایت میں بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر اس کے لئے ایک علیحدہ مضمون درکار ہے مگر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔

دو ایک مثالیں دیکھئے۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ استاد امانت علی خاں اور استاد فتح علی خاں لاجواب اور بیمثال گائک تھے۔ ان جیسے باکمال لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ مگروہ کہیں کہیں راگ کی قواعدی صحت میں لاپرواہی کے مرتکب بھی ہوئے جس کی وجہ سے موسیقی کے طالب علم ابہام کا شکار ہوتے رہے۔ مثال کے طور پر ان کا پیش کیا ہوا راگ ”رام ساکھ“ ریکارڈ میں موجود ہے۔ ولمبت ایک تال کے بول ”رے پیا تورے نین“ گاتے ہوئے بول کی بندش اور راگ کے چلن میں دھیوت اور مدھم کے سُر پر ٹھہرتے ہیں۔

”رے پیا تورے نین“ اس کی نوٹیشن انھوں نے یوں گائی ہے۔ ساریمارے۔ سانی۔ سا۔ گا۔ ما۔ دھا۔ پنچم نہ ہونے کے برابر استعمال کرتے ہیں، مگر مدھ لے جھپ تال میں ”مو پے کرم کرو“ گاتے ہوئے پنچم واضح طور پر ٹھہرا دیتے ہیں جس سے راگ کی شکل بالکل بدل جاتی ہے۔ ”مو پے کرم کرو مو پہ“ نوٹیشن کچھ یوں ہے۔ گا ما پا پا ما دھا پا۔ دھا ما پا گا۔ توجہ کیجیے پنچم کا سر کتنی وضاحت سے لگ رہا ہے جو کہ ولمبت میں نہیں ہے۔ اور بہلاوے کہتے ہوئے بھی پنچم کا سر بہت ہی خفیف استعمال ہوا ہے۔

مگر حیرت تو تب ہوتی ہے جب درُت تین تال کا ترانہ ”تا نا دے رے دیم“ گاتے ہوئے دوبارہ دھیوت مدھم کی سنگت قائم کر لیتے ہیں اور پنچم اور رکھب پر ٹھہراؤ آجاتاہے ترانہ ”تانا درے دیم کی نوٹیشن کچھ یوں ہے۔ نی سا گا ما دھا۔ پا۔ پا پا پا پا پا۔ گا ما رے۔ ترانہ گاتے ہوئے رکھب جس طرح استعمال ہوتا ہے وہ نہ تو ولمبت میں اس طرح استعمال ہوا نہ مدھ لے میں۔ اگر غور سے سنا جائے اور گایا یا بجایا جائے تو معلوم ہو گا کہ ولمبت میں راگ کا سمواد اور ہے۔

مدھ لے گاتے ہوئے اور اور درت میں بالکل ہی اور اس میں شک نہیں کہ دونوں خان صاحبان نے بہت خوبصورت گایا۔ مگر موسیقی کے شائقین اورطالب علم الجھن کا شکار ہی رہے کہ کیا راگ کی اصل شکل برقرار رہی۔ ایک اور مثال ملاحظہ فرما ئیں۔ خواجہ خورشید انور کی زیرِ نگرانی راگوں اور گھرانوں کی گائیکی کو محفوظ کرنے کے لئے ”راگ مالا“ کے نام سے دس البم تیار ہوئے۔ راگ ایمن کی تفصیل بیان کرتے ہوئے خواجہ صاحب کہتے ہیں کہ ”نی رے ما رے ما گا“ راگ ایمن کی خا ص تان ہے جو راگ ایمن کے علاوہ کلیان ٹھاٹھ کے کسی اورراگ میں نہیں آتی۔

مگر جب استاد سلامت علی خان تین تال میں ”نیا کرو پار“ گاتے ہیں تو الاپ سے لے کر آخری تان تک کہیں بھی اس خاص تان کو ایک دفعہ بھی استعمال نہیں کرتے۔ کیا ایک طالب علم الجھن کا شکار نہیں ہو گا کہ اگر خاص اور نایاب تان ”نی رے ما رے ما گا“ ہے تو خاں صاحب نے اسے استعمال کیوں نہ کیا؟ اور اگر یہ خاص تان نہیں ہے تو خواجہ صاحب نے اسے بیان کیوں کیا؟ راگوں کے نام تبدیل کر دینا اور اپنے مرضی کے نام رکھ دینا خیالوں کے بولوں کو غلط گا دینا یا یکسر تبدیل کر دینا، مختلف راگوں میں ابہام پیدا کر دینا ہمارے اساتذہ کا شیوہ رہا ہے۔

اساتذہ کا یہ طرزِ عمل موسیقی کے طالب علموں کو ہمیشہ الجھن میں ڈال دیتا کہ سند کہاں سے لائیں۔ مستند کیا ہے۔ کتاب ”ٹوڑی کی روایت“ نے پاکستان و ہندوستان میں علمِ موسیقی میں تعلیم وتحقیق کی نئی جہت کو متعارف کروایا ہے۔ اس حالیہ طبع شدہ کتاب ”ٹوڑی کی روایت“ میں نہ صرف ان علمی کوتاہیوں پر بات کی گئی ہے بلکہ دلائل اور تاریخی حوالوں کے ساتھ اصلاح بھی کی گئی ہے۔ ایک مثال دیکھئے۔

جناب پرویز پارس صاحب اپنی کتاب ”ٹوڑی کی روایت میں لکھتے ہیں۔ ”جونپوری کواکثر کتابوں میں جیونپوری لکھا ہے۔ بلکہ کئی بزرگ فنکار اب بھی اسے جیونپوری کہتے ہیں۔ جبکہ کئی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راگ سلطان حسین شرقی کی اختراع ہے اور یہ جونپور کے شہر کے نام سے موسوم ہے۔ کرناٹکی راگوں کو ہندوستانی راگوں میں ڈھالنے کے بعد کئی نام تبدیل کر دیے گئے۔ مثلاً جنسم موہنی کو پاکستان میں پہلے شِو کلیان کہا گیا۔ پھر شِوکی جگہ شب ہو گیا، یہ ہندو پاک کی حد بندی کے سبب ہوا اور دیکھتے دیکھتے استاد سلامت علی خاں نے اس کا نام مدھ کلیان رکھ دیا۔“

کتاب ”ٹوڑی کی روایت“ کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں۔ ٹوڑی کے ماخذ، وجہ تسمیہ، مروجہ چلن پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ راگ ٹوڑی میں مروجہ غلط فہمیوں کی نہ صرف نشاندہی کی گئی ہے بلکہ دلائل کے ساتھ تصفیہ بھی کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر شدھ ٹوڑی، بہادری ٹوڑی اور میاں کی ٹوڑی میں فرق کو بہت اچھی طرح واضح کر دیا گیا ہے۔ اقسام کو آروہی امروہی کے ساتھ تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ 73 راگ ٹوڑی کی کتاب میں میاں کی ٹوڑی، گجری ٹوڑی، بہادری ٹوڑی، بھوپال ٹوڑی، بیراگی ٹوڑی، بلاس خانی ٹوڑی، دیسی ٹوڑی، حسینی ٹوڑی، سالگ ورالی ٹوڑی، لاچاری ٹوڑی، لکشمی ٹوڑی، انجنی ٹوڑی، ابھیری ٹوڑی، مارگی ٹوڑی، گندھاری ٹوڑی، درباری ٹوڑی، جونپوری ٹوڑی، سندوری ٹوڑی، کھٹ ٹوڑی، علینی ٹوڑی، پرمیشوری ٹوڑی، اہیری ٹوڑی، انیلی ٹوڑی، سرمیلی ٹوڑی، شری منی ٹوڑی، کے خیال بمعہ نوٹیشن دیے گئے ہیں اور دیگر ٹوڑیوں کی آروہی امروہی، وادی سموادی، چلن کے ساتھ وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔

کتاب کے آخر میں 32 ٹھاٹھ کے نظام کے تحت ہر ٹھاٹھ کی آروہی امروہی بمعہ نام دی گئی ہے اور کرناٹک موسیقی کے حساب سے اس ٹھاٹھ کا نمبر بھی لکھ دیا گیا ہے۔ موسیقی کے سنجیدہ طالبعلم جانتے ہیں کہ ٹھاٹھ کانظام اپنی جگہ معاون ہے مگر ”انگ“ ٹھاٹھ کے نظام سے آگے ہے چونکہ انگ بتاتا ہے کہ متعلقہ راگ کس انگ سے گایا جائے۔ ٹوڑی ایک راگ ہے، ایک ٹھاٹھ ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک ”انگ“ کا نام بھی ہے۔ ٹوڑی انگ میں جتنے راگ گائے جاتے ہیں اس کتاب میں انھیں لکھ کرمحفوظ کر لیا گیا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلی کتاب ہے جس میں ٹوڑی کی اتنی اشکال کوجمع کیا گیا ہے۔ علم و تحقیق اور تعلیم و ترویجِ موسیقی میں یقیناً یہ ایک بہت بڑا قدم ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی موسیقی یقیناً پرویز پارس صاحب کی مشکور رہے گی کہ انھوں نہ صرف وقت کی دھول میں سے ٹوڑی کی گمشدہ اشکال کو ڈھونڈ نکالا ہے بلکہ ٹوڑی کی جتنی اشکال گائی جاتی ہیں ان کی اصلاح و درستگی بھی فرمائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).