شریک حیات سے جنسی ترجیحات پہ بات کرنا “ڈرٹی ٹالک” نہیں


ہم نے پچھلے مضمون میں میاں بیوی کے تعلق کے بنیادی عناصر پر بات کی تھی۔ آج ہم یہ دیکھیں گے کہ جنسی ناآسودگی سے شادی شدہ زندگی کیسے متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان جیسے معاشروں میں رومانوی اور ازدواجی رشتے بہت سے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ قدرتی کشش اس تعلق کا بنیادی عنصر ہے جس پہ ہمارے معاشرے میں سب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔

ایک مسئلہ جس سے ہمارے اکثر عوام نبرد آزما ہیں لیکن اس کا برملا اظہار نہیں کرسکتے وہ ہے جنسی نا آسودگی۔ ایک کثیر تعداد کو اس حوالے سے مطلوبہ معلومات ہیں ہی نہیں۔ عموماً افراد ناصرف مجموعی طور پہ اپنی جسمانی ساخت کے حوالے سے شرمندگی کا شکار ہیں بلکہ اپنی جنسی اعضاء کے حوالے سے بھی کئی قسم کی غلط فہمیوں کی وجہ سے غیر مطمئن ہیں اور شرمندگی میں مبتلا ہیں۔

یہ مسئلہ صرف والدین کی طرف سے طے کی گئی شادیوں میں نہیں بلکہ اپنی پسند سے کی گئی شادیوں میں بھی آتا ہے کیوں کہ تعلق کی کسی بھی نہج پہ جنسی احساسات پہ بات نہیں کی جاتی۔ دوسرے فریق کی جنسی ترجیحات نہ معلوم کی جاتیں ہیں نہ انہیں اہمیت دی جاتی ہے۔ جب کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ اگر جوڑے کی اخلاقیات کے مطابق نکاح سے پہلے اس پہ بات کرنا نامناسب ہو تو نکاح کے بعد ایک دوسرے سے بات چیت کا وقت نکالنا ضروری ہے۔

جسمانی تعلق استوار کرنے سے پہلے ایک دوسرے سے رومانوی اور جذباتی تعلق اتنا مضبوط کرنا اہم ہے کہ دونوں فریق بغیر ہچکچاہٹ جنسی تعلق کے حوالے سے اپنے ڈر، تحفظات اور ترجیحات ایک دوسرے کو بتا سکیں۔ یہ وضاحت اہم ہے کہ یہ بات چیت “سیکس ٹالک” یا “ڈرٹی ٹالک” کے حوالے سے نہیں کیوں کہ صرف حظ اٹھانے کے لیے جنسی نوعیت کی بات چیت بر محل اور بے محل کرنا ہمارے یہاں عام ہے۔ جو کبھی کبھی ہراسانی تک بھی پہنچ جاتی ہے لیکن سہنے والے اس کی شکایت نہیں کرسکتا۔ یعنی ایک مرد اپنی کولیگ پہ جنسی تبصرہ کر لیتا ہے۔ سارے یار دوست اس کا مزہ لے لیتے ہیں لیکن وہی شخص تنہائی میں اپنی بیوی یا محبوبہ سے اپنی اور اس کی جنسی ترجیحات پہ بات نہیں کر پاتا نہ ہی کرنا چاہتا ہے۔

اسی طرح خواتین سہیلیوں یا دیگر خواتین کے درمیان جنسی نوعیت کے مذاق با آسانی کر لیتی ہیں لیکن وہی بات کسی مسئلے کے حل کے لیے کسی قریبی سہیلی یا اپنے شوہر سے کرتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔

 یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں غیر ازدواجی تعلقات کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں کیوں کہ ہم اس موضوع پہ بات نہیں کرنا چاہتے۔ ہمارے یہاں ایک فرد بیک وقت جنسی تسکین کے لیے کسی ایک سے رجوع کرتا ہے جذباتی تسکین کے لیے کسی دوسرے سے اور معاشرے میں نیک نامی کے لیے شادی کسی اور سے کرتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جذباتی مسائل پہ بات کرنا غیر اہم سمجھا جاتا ہے اور جنسی مسائل پہ بات کرنا ممنوع۔ لیکن ساتھ ساتھ اخلاقی حدود اور رشتے نبھانے کی سمجھ بھی واضح نہیں ہوتی۔

ہمارے یہاں والدین کی ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ معاشرتی اور قانونی رشتہ بنا دینے سے جذبات خود کنٹرول ہوجاتے ہیں۔ یا جذبات کو کنٹرول کر لینا چاہیے۔ جب کہ انسانی جذبات کو کنٹرول کرنے کے لیے پہلے اپنے جذبات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کبھی احترام، کبھی معاشرتی نیک نامی اور کبھی جائیداد سے عاق ہونے کی ڈر سے یہ فیصلے مان تو لیے جاتے ہیں کسی حد تک منطقی طور پہ خود کو ان رشتوں کے ساتھ نباہ کے لیے تیار بھی کیا جاتا ہے لیکن پچھلے ٹوٹے رشتے کی وجہ سے ہوا جذباتی نقصان، مرمت کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ عموماً رشتوں میں یہ نباہ فریقین کی جانب سے ہوتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں جہاں مرد کو عورت کے مقابلے میں کئی حوالوں سے آزادی حاصل ہے وہاں یہ نباہ عورت کی طرف سے زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن کچھ رشتوں میں مرد مکمل قربانی دے رہا ہوتا ہے اور اس پدرسری معاشرے کے باوجود ہم اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کرسکتے۔

ایک یا ایک سے زیادہ دفعہ رومانوی تعلق ٹوٹنے کا صدمہ اور ساتھ دوسروں کے تجربات کا مشاہدہ فرد کو یہ یقین کرنے پہ مجبور کردیتا ہے محبت میں کبھی بھی دوسری طرف سے وفا نہیں ملتی۔ یہ غلط فہمی بالکل ایسی ہے جیسے ہم کسی ایسے شہر میں رہتے ہوں جہاں فضائی آلودگی کے باعث تیس سال تک پہنچتے پہنچتے ہر شخص دمے کا شکار ہوجاتا ہو اور وہاں لوگ یہ ماننا شروع کردیں کہ دنیا کے تمام لوگ تیس سال کے بعد دمے کے مریض ہوجاتے ہیں۔ یعنی مسئلہ محبت میں نہیں مسئلہ ہمارے رشتہ نبھانے کی صلاحیت میں ہے۔

جہاں ایک یا دونوں فریق پہلے سے اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ دوسرا فریق رشتہ نبھانا نہیں چاہتا۔ یقیناً یہ سوچ کچھ رشتوں میں درست بھی ہوتی ہوگی کیوں کہ ایک طرف ہم قدرتی کشش کو نظر انداز کیے ہوئیے ہیں دوسری طرف ہم آبادی کے اس طبقے کو زبردستی اس تعلق پہ مجبور کرتے ہیں جو کہ صنفِ مخالف میں بالکل کشش نہیں رکھتا۔ یہ افراد جسمانی تعلقات قائم کرسکتے ہیں لیکن اپنے ساتھی کے ساتھ رومانوی تعلق کبھی قائم نہیں کرپاتے کیوں کہ صنف مخالف کو دیکھ کر اور چھو کر قدرتی طور پہ جو کیمکیلز جسم میں بنتے ہیں اور رومان یا محبت کا احساس دلاتے ہیں وہ ان افراد کے جسم میں صنفِ مخالف کے لمس سے نہیں بنتے۔

جسمانی اور جذباتی طور پہ نا آسودہ جوڑا جب بچوں کی تربیت کرتا ہے تو اپنی نا آسودگی تربیت کی صورت بچوں میں منتقل کردیتا ہے۔ ان کی شخصیت کی جھنجھلاہٹ، اکتاہٹ، رشتہ نبھانے کی طرف غیر سنجیدہ رویہ دوسرے سے غیر حقیقی توقعات جن کا حوالہ پچھلے مضمون میں بھی دیا۔ یہ سب روئیے بچے والدین سے سیکھتے ہیں۔ یعنی ہر دفعہ غیر ذمہ داری سے بنایا ایک رشتہ پچھلے مسائل کے ساتھ مل کر زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔

ایک فرد جو بچپن سے جذباتی گرم جوشی سے محروم رہا ہے کیوں کہ والدین کا آپس کا تعلق مسائل کا شکار تھا، پھر وہ بلوغت کے بعد یک طرفہ اور دو طرفہ رومانوی اور جنسی تعلقات سے صدمے کا شکار ہوتا ہے اور پھر وہ ایک ایسے فرد سے شادی کے رشتے میں بندھتا ہے جس سے وہ کسی قسم جذباتی یا جنسی کشش محسوس نہیں کرتا اور ساتھ ہی وہ ایک ایسے معاشرے میں ہے جہاں اس کا مسئلہ کوئی سمجھنا نہیں چاہتا۔ یہ صورت حال ہوتی ہے جب ہمارے یہاں کا ایک عام فرد وہ مرد ہو یا عورت ایک نیا رشتہ شروع کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ رشتے کی ابتداء میں سب سے پہلے اس رشتے میں ایک دوسرے کی سمجھوتے کی صلاحیت جانچتے ہیں جس میں ایک دوسرے کی ظاہری شخصیت کو ممکنہ حد تک بدلنے کی کوشش سے لے کر روزمرہ کی عادات بدلنے تک بہت کچھ شامل ہوتا ہے۔ یہ سب سے پہلا نون وربل پیغام ہے کہ ویسے تو تم مجھے پسند نہیں ہو لیکن یہ پہنو یا ایسے لگو تو شاید نبھانا کچھ آسان ہو۔ چادر یا دوپٹہ اوڑھنے والی خاتون کو برقع اوڑھا دیا جاتا ہے اور برقع اوڑھنے والی کو گلے میں دوپٹہ ڈالنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ داڑھی والے حضرت کو کلین شیو ہونے پہ زور دیا جاتا یا کلین شیو کی داڑھی رکھوائی جاتی ہے۔ شلوار قمیض میں خود کو پرسکون محسوس کرنے والے کو جینز پہننے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔

ہمارے یہاں یہ غلط فہمی بہت گہری ہے کہ ایک دوسرے کے لیے بدلنے کا مطلب ایک دوسری کی پسند نا پسند، سکون، ذاتی ترجیحات اور کبھی کبھی عقیدے پہ اپنی پسند مسلط کردی جائے۔ جب کہ ایک مثبت تعلق میں دونوں پہلے دوسرے فریق کی ذاتیات کا احترام کرتے ہیں۔ اسے اس کی ظاہری شخصیت پہ اعتماد بڑھانے میں مدد کرتے ہیں اور جذباتی مسائل بڑھانے کی بجائے انہیں کم کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔

اس کے بعد جس بات کی اہمیت ہے وہ شوہر اور بیوی کے رومانوی تعلق کی ہے۔ پیار سے ہاتھ پکڑنے سے لے کر ایک دوسرے کے جسم کو محبت اور احترام سے برتنے تک ہر لمس فریقین کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بہتر کرتا ہے۔ کسی کو بے دردی سے جنسی تعلق پہ مجبور کرنا یا شامل کرنا انتہائی شدید ذہنی صدمے کا باعث ہوتا ہے جو آپس کے دیگر تعلقات پہ بھی بری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ جب کہ اس کے برخلاف پیار سے چھونا، گلے لگانا، اور دیگر لمس کے ذریعے بغیر کہے یہ پیغام دیا جاسکتا ہے کہ دوسرے فریق کا وجود آپ کے لیے صرف ایک چیز نہیں بلکہ باعثِ مسرت تعلق کی نشانی ہے۔

چوں کہ ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کے معاشرتی کردار میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے اسی لیے جنسی کشش اور جذبات ایک جیسے ہونے کے باوجود ان کے مسائل ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔

اسی بارے میں: محبت میں ناکامی کا صدمہ شادیاں متاثر کرتا ہے

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima