بہت دیر کی مہرباں آتے آتے! دینی مدارس میں ہائر سکنڈری تک کی تعلیم یقینی بنائی جائے۔ ۔ جمعیت علماء ہند


آج سے 153 سال قبل بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہ نے دارالعلوم کی تاسیس کے وقت جو بات کہی تھی وہ آج جمعیت علماء ہند نے اٹھائی ہے۔ اس طویل عرصے تک ارباب مدرسہ سوتے کیوں رہے؟

مولانا نانوتوی نے اغراض و مقاصد کے ضمن میں لکھا کہ ”چونکہ (انگریزوں کے ذریعے قائم کردہ سرکاری مدرسوں (اسکولوں ) میں دینی موضوعات نہیں پڑھائے جاتے ہیں اور دینی مدارس کے اخراجات جو اوقاف کی رقم سے پورے ہوتے تھے اس اوقاف کو انگریزوں نے ضبط کر لیا اس لئے عوامی چندے سے چلنے والا مدرسہ قائم کیا گیا ہے لیکن اس میں صرف وہ موضوعات پڑھائے جائیں جو سرکاری اسکولوں میں نہیں پڑھائے جاتے۔ مدرسہ ہذا کے طلباء کو یہاں سے فراغت کے بعد سرکاری اسکولوں میں جاکر علوم جدیدہ میں کمال پیدا کرنے کی سعی جاری رکھنی چاہیے۔“ (روداد 1290 ہجری) لیکن صد افسوس دینی مدارس کے ارباب نے اپنے بانی اعظم کی تجویز کو اس طرح طاق پر رکھ دیا کہ مسلمانوں کے دانشور طبقے نے یہ کہنا شروع کردیا کہ مولویوں نے انگریزی کی مخالفت کی۔

جب میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ جس طرح گاندھی جی نے انگریزوں کے نمک اور کپڑوں کا بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا تو وہ نمک اور کپڑے کا مقاطعہ نہیں تھا بلکہ انگریزوں کے خلاف احتجاج درج کرانا تھا اور جب یہ سبب/ علت ختم ہوگئی تو مسبب/ معلول آزاد ہوگیا اسی طرح اگر علماء نے انگریزی کی مخالفت کی بھی تو اس کی علت تھی اور علت زائل ہونے کے بعد معلول انگریزی زبان یا تعلیم آزاد ہو گئی۔ تو وہ مجھ پر جانبداری کا الزام لگاتے ہیں اور حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے مولویوں کا دفاع کرنا کہتے ہیں۔ جو مزاج یار میں آئے۔

نہ سیاہی کا ہوں دشمن نہ سفیدی کا دوست
ہم کو آئینہ دکھانا ہے سو دکھا دیتے ہیں

مگر افسوس بانی کی تاکید کے باوجود ارباب مدارس نے اپنے بانی کی باتوں کو قابل اعتنا نہیں سمجھا اور 153 سال مسلم قوم کے نونہالوں کو عصری تعلیم کے میدان میں جاہل بنا کر رکھا۔ اور کون جانتا ہے ابھی بھی وہ خواب خرگوش سے بیدار ہوتے ہیں یا نہیں؟

حکومت ہند نے مدرسہ تعلیم کی جدید کاری کے منصوبے کے تحت 1980 میں ایک اعلیٰ با اختیار پینل قائم کیا تھا پھر 1990 میں کمیٹی تشکیل دی 1991 میں فاضل نمائندوں اور ریاستی تعلیم کے با اختیار ذمے داروں کے ساتھ میٹنگ ہوئی لیکن کسی خاطر خواہ نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا۔ اس لئے کہ ارباب مدارس کو خدشہ تھا، اور ہے، کہ مالی امداد کے راستے حکومت مدارس کے نصاب اور نظام میں دخل اندازی کرے گی۔ ہندوستان میں دینی مدارس دو حصوں میں منقسم ہیں؛

1۔ سرکاری مدرسے یعنی جزوی مالی امداد والے مدرسے جن کے لئے شرط ہے کہ وہ ٹرسٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوں اور اپنے نصاب میں سائنس ریاضی سماجی علوم ہندی اور انگریزی شامل ہوں۔ یہ ریاستی حکومت کے مدرسہ بورڈ کے تحت چلتے ہیں۔

اور 2۔ وہ مدرسے جو کسی قسم کی مالی امداد نہیں لیتے۔ ان کا اپنا درس نظامی کا نصاب ہے۔ اکثریت مدارس کی اسی قسم کی ہے۔ ان مدارس میں ایسی انارکی و بدنظمی ہے کہ یہ وفاق مدارس سے منسلک ہونے کے باوجود اپنی من مانی کرتے ہیں۔ 20،30 طلباء والے درجہ حفظ والا مکتب بھی اپنے کو جامعہ یونیورسٹی لکھتا ہے۔ اللہ جانے یہ ان کی ( مہذب زبان میں ) کم علمی اور (عام زبان میں ) جہالت ہے یا چندہ کی خاطر بڑا بنا کر پیش کرنا۔

روایتی تعلیم اسٹیٹ بورڈ یا CBSE یا دیگر بورڈ کے تحت چلتی ہے۔ پرائمری اسکول، مڈل اسکول، ہائر سکنڈری اسکول اس کے بعد کالج اس کے بعد یونیورسٹی کہلانے کی شرائط ہوتی ہیں جس کو پوری کرنے کے بعد ہی ان بورڈ سے ان اسکولوں کا الحاق ہوتا ہے۔ اسکولوں کی پرائمری سے لے کر ہائر سکنڈری تک کے لئے کتنے کلاس روم ہوں وہ اسی درجہ بندی کے تحت طے ہیں۔ لیکن مدارس والے آزاد ہیں۔ نام بھی عجیب و غریب رکھتے ہیں اور کمرشیل یونٹ دکانوں کی طرح ”آزاد فارمیسی“ کے بغل میں دوسرا شخص ”نیو آزاد فارمیسی“ کا سائن بورڈ لگاتا ہے جس میں ”نیو“ بہت ہی چھوٹے فونٹ میں لکھا ہوتا ہے۔ اسی طرح 50 35 طلباء والے مکتب یا مدرسہ والے نے اگر بورڈ لگایا ”مرکزی دارالعلوم“ جس میں مرکزی خفی اور دارالعلوم جلی حروف سے لکھا گیا ہو تو دیانت داری کے خلاف ہے۔

آمدم بر سر مطلب یہ کہ سوال یہ ہے کہ سرکاری امداد لیں یا نہ لیں طلباء کو بنیادی عصری تعلیم سے آراستہ کرنے میں کیا قباحت تھی یا ہے؟ بعض مولوی حضرات نے بطور جواز یہ کہا کہ چندہ دینے والے مخیر حضرات یہ کہتے ہیں کہ ہم زکوٰۃ صدقات اور عطیات کی رقم دین کی تعلیم دینے کے لئے دیتے ہیں۔ ممکن ہے اس بات میں صداقت ہو مگر ایسی سوچ والے بہت کم اور استثناءات کے زمرے میں ہیں اور اس طرح کی سوچ کے ذمے دار بھی علماء ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی زندگی کو دین اور دنیا کے خانوں میں بانٹ رکھا ہے جبکہ مسلمانوں کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، تجارت، ملازمت، زراعت، سماجی خدمات اور سیاست گویا روزانہ کی چوبیس گھنٹے کی زندگی 24 × 30 ×life عبادت ہے، بشرطیکہ اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ و سلم کے طریقے پر ہو۔

بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا اس کی دلجوئی کرنا، اس کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ آرائی کرنا، بچوں اور بیوی پر خرچ کرنا، سفر سے لوٹتے ہوئے ان کے لئے تحفے لانا، ان کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرنا، نئے پکوان بنے یا نیا پھل لائے اس میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھیجنا یہ سب عبادت ہے یہ سب دین ہے۔

اسی مسلک کی ایک شاخ کے یہاں اور بھی تشدد اور تنگ نظری ہے وہ مسجدی مسلمان بنانے کے مشن میں لگے ہیں۔ ان کا سارا زور وضع قطع اور عبادات حقوق اللہ پر ہے۔ عموماً حقوق العباد کی تربیت نہیں کی جاتی (استثنات کے ساتھ) ان کے ذہنوں میں صرف یہ پیوست کیا گیا ہے کہ اس عبادت کے یہ یہ فضائل ہیں اور یہ کہ شرک کے علاوہ اللہ سب معاف کر دے گا جبکہ اس کا اطلاق حقوق العباد پر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اخلاق اور معاملات میں ان کی اکثریت کا ریکارڈ بہت خراب ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا عصری یا دنیاوی تعلیم کے بارے میں ان کا اعتراض غیر متوقع نہیں ہے۔

اب ارباب مدارس کو کون سمجھائے کہ اچھا اور ذمہ دار شہری بننے کے لئے بنیادی عصری تعلیم ضروری ہے۔ آپ کے حقوق کیا ہیں اور آپ پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کن موضوعات پر اور کس حد تک لب کشائی کرنے کی اجازت ہے اور سرخ لکیر کہاں سے شروع ہوتی ہے جس کے تحت آپ قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).