صفائی اور کچرے کا مسئلہ اور آدھا ایمان


دنیا بھر میں ہر آنے والے دن انسانی زندگی سے متعلق کوئی نہ کوئی نئی تحقیق سامنے آ جاتی ہے اور پھر اس کے مطابق عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس ساری تحقیق اور حقیقت پر کان دھرتے نہیں اور اگر ان کو سننا گوارا کر بھی لیں تو ان کو ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے کان سے باہر نکال دیتے ہیں۔ اس وقت دنیا کو دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے

1۔ گلوبل وارمنگ

2۔ پلاسٹک

ہم ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کے عظیم مسلمان ان دونوں باتوں کے بارے میں سوچنے کی بھی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ہم تو وہ ”عظیم قوم“ ہیں جنہیں ابھی کچرے کا مسئلہ در پیش ہے۔ ساری دنیا میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لئے ری سائیکل کا نظام موجود ہے۔ یورپ اور امریکہ کے شہروں میں چلے جائیں وہاں صاف ستھرا ماحول نظر آئے گا۔ اتنا صاف کے شاید ہمارے گھر تو دور ڈرائینگ روم بھی اتنے صاف نہیں ہوتے۔ لیکن اس کے باوجود ان ترقی یافتہ ملک کے ”کافروں“ کو پلاسٹک کو ٹھکانے لگانے کی فکر لاحق ہے۔ لیکن پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے ایجنڈے میں کہیں صفائی کا خانہ ہی نہیں۔ یہ ہے حال اس قوم کا جس کے نبی نے صفائی کو ایمان کا نصف حصہ قرار دیا ہے۔ یہ ہے حال اس مذہب کے ماننے والوں کا عمل جس میں سب سے زیادہ صفائی کے احکامات کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

پاکستان کی اکثریت صفائی کے لفظ سے واقف ہی نہیں ہے۔ آج کل کراچی میں کچرے اور صفائی کے مسئلہ کو روزانہ کی بنیاد کر اُٹھایا جاتا ہے۔ پر سوال یہ ہے کہ کیا کچرا اور صفائی صرف کراچی کا مسئلہ ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ کراچی سمیت صفائی پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے صاف کہلانے والے شہر اسلام آباد میں بھی صفائی کا کوئی حال نہیں ہے۔ پبلک جگہیں اور سڑکیں تو سارے پاکستان کی ہی کچرا منڈی ہیں لیکن سرکاری دفاتر میں بھی صفائی کا فقدان ہے۔

بلکہ اسلام آباد کا تو یہ حال ہے کہ چند روز پہلے جب اسلام آباد حکومت کی طرف سے پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد کی گئی تو اسلام آباد کے بہت زیادہ چلنے والے ریسٹورانٹ کے مالکوں نے جس طرح حکومتی فیصلے کی دھجیاں بکھیریں وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ یہ اس شہر کی بات ہے جو پاکستان کا مہذب ترین، پڑھے لکھوں اور امیر سمجھے جانے والے لوگوں کا شہر ہے۔

عمران خان حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لئے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کافی کوششیں کی ہیں۔ لیکن سیر و سیاحت کے ان مقامات کا حسن جس طرح تباہ کیا جا رہا ہے وہ دیکھ کر پتھر دل بھی خون کے آنسو بہائے۔ مری اور گلیات تو کب کے کچرا دان بن چکے لیکن اب ناران، کلام، کمراٹ، گلگت وغیرہ بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ مزید ظلم یہ کہ جن جگہوں پر کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے وہاں کچروں کے پہاڑ بن گئے ہیں۔ لاہور کی رنگ روڈ پر سے گزرنا اس قدر مشکل ہے کہ بند شیشوں والی کار میں بھی اس کی بدبو آتی ہے۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ وہاں سینکڑوں غریب لوگ آباد ہیں۔ (لاہور رنگ روڑ کے جس مقام کی بات کی جا رہی ہے وہ محمود بوٹی ہے، یہ وہ ڈمپنگ پوائنٹ ہے جہاں سارے شہر سے کوڑا جمع کر کے لایا جاتا ہے اور یہیں اسے ری سائیکل کرنے کا چھوٹا موٹا بندوبست بھی موجود ہے۔ تاہم اس کا موازنہ کراچی میں پھیلے کوڑے کے ڈھیروں سے نہیں کیا جا سکتا۔ کسی زمانے میں یہ علاقہ شہر کی حدود سے باہر تھا۔)

پاکستان کے تمام بڑے شہر کچرے کا ڈھیر ہیں۔ لیکن نہ حکومت اس بارے میں کوئی منصوبہ بندی کرنے کے لئے تیار ہے نہ ہی کوئی شہری۔ ہماری ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ ہمارا مقابلہ ان ”کافروں“ سے ہے جن کے واش رومز ہمارے کمروں سے زیادہ صاف ہیں۔ لیکن ہمارا رویہ یہ ہے اپنا گھر صاف کر کے کوڑا کرکٹ گلیوں محلوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں صاف پانی کا ٹیکس پچاس ڈالر ہے جبکہ سیورچ کا ٹیکس دو سو پچاس ڈالر ہے۔ گویا پانچ گنہ زیادہ ٹیکس صفائی کے لئے ہے۔

خیر یہ تو اس ملک کا نقشہ ہے جن کو صفائی کا شوق ہے ہمارا اس سے کیا لینا دینا۔ یورپ و امریکہ میں کوئی کچرا دان کے علاوہ گند نہیں پھینکتا پر ہمارا مقابلہ ہی کیا ہے ہم تو جہاں کھایا وہاں پھینک دیا۔ چلتے چلتے گند پھینکنا ہماری عادت ہے اور گاڑی میں سے گند باہر پھینکنا سٹیٹس سیمبل۔ گلی گلی پان کی پیک ملے گی۔ دیواریں تک ہمارے گند کی کہانیاں سناتی نظر آئیں گی۔

ساری دنیا اس وقت کچرے سے فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ لیکن ہمیں اور ہمارے وزیر سائنس کو انڈیا کے خلائی پروگرام پر لطیفہ بنانے سے فرصت ملے تو اس سائنس کے بارے میں سوچیں۔ دنیا میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کے کئی طریقے موجود ہیں لیکن ہم کسی سے بھی فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ کچرا اُٹھانے والی کمپنیوں کو ٹھیکے دینے میں کرپشن کی کہانی تو آپ سنتے رہتے ہیں لیکن کاش اس کرپشن کے باوجود صفائی بھی ہو جاتی۔ کچرا صرف کراچی کا مسئلہ نہیں بلکہ سارے پاکستان کا مسئلہ ہے۔

Clean and Green Pakistan کے بینرز پاکستان کے ہر بڑے شہر میں آویزاں ہیں لیکن اس کی طرف توجہ کوئی نہیں کرتا۔ کچرے اور صفائی کا مسئلہ اس دن حل ہوگا جس دن ہمیں صفائی کی اہمیت کا ادراک حاصل ہوجائے گا۔ جب تک پاکستان کا ہر شہری صفائی کی مہم کا آغاز نہیں کرتا ہماری سوئی ہوئی حکومتیں جن کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں وہ کبھی اس کچرے کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب نہیں ہوں گی۔ کہنے کو ہم اسلامی ملک کے مسلمان باشندے ہیں لیکن آدھا ایمان ہمارے پاس سے بھی نہیں گزرا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).