کانستینتین روکوسووسکی : ”کمانڈر ایر“ سے فاتح مارشل تک


آٹھ مئی 1945 کو شہر برلن کے علاقے کارلس ہورسٹ کے انجنیرنگ کالج میں جو مہمان پہنچے وہ کوئی عام مہمان نہیں تھے۔ دسیوں جرنیلوں کے علاوہ ان میں جرمنی کی تمام مسلح افواج کے کمانڈر اور دو مارشل بھی تھے جن میں سے ایک مارشل سوویت تھا اور ایک امریکی۔ یہ اعلٰی عسکری عہدیدار جرمنی کی شکست کے محضر نامے پہ دستخط کرنے کی خاطر جمع ہوئے تھے۔ سوویت یونین کی جانب سے اس دستاویز پر مارشل گیارگی ژوکوو نے امضاء ثبت کیے تھے۔ یہ رسم مرکزی یورپ کے وقت کے مطابق رات گیارہ بجے تمام ہوئی تھی جبکہ اس وقت ماسکو میں رات کا ایک بج چکا تھا یعنی 9 مئی ہو چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں فسطائیت پر فتح کا دن 8 مئی کو منایا جاتا ہے اور روس میں 9 مئی کو۔

فسطائی جرمنی کی حتمی جبین سائی کا جشن سوویت یونین میں فاتحانہ پریڈ کی شکل میں منایا گیا تھا۔ یہ پریڈ 24 جون کو ماسکو کے سرخ چوک پر ہوئی تھی۔ پریڈ سے سلامی مارشل ژوکوو نے لی تھی۔ پریڈ کی کمان مارشل کانستینتین روکوسووسکی کر رہے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے یہ دو نامور سپہ سالار دو گھوڑوں پر سوار ہو کر ان لوگوں کے سامنے آئے تھے جنہوں نے انسانی تاریخ کی ہولناک ترین جنگ جیتی تھی۔ روکوسووسکی اور ژوکوو، دونوں یکساں طور پر فطین اور نڈر سپاہی تھے جو دوست بھی تھے اور رقیب بھی، دونوں مارشل بھی تھے اور سوویت یونین کے ہیرو ہونے کے خطاب یافتہ بھی۔ تاہم ان میں سے صرف ایک پر ہی سٹالن نے ”تھرڈ رائخ“ کے دارالحکومت پر بھرپور حملہ کرنے کے سلسلے میں اعتماد کیا تھا۔ ۔ ۔

ہٹلر کے جرمنی کی سوویت یونین کے ساتھ مڈھ بھیڑ کے آغاز میں کانستینتین روکوسووسکی عمر کے پینتالیس برس پورے کر چکے تھے۔ ان میں سے 27 برس انہوں نے فوج میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے بسر کیے تھے، پہلے روسی فوج میں اور پھر سرخ فوج میں۔ مستقبل کے اس سپہ سالار کا جنم 21 دسمبر 1896 کو روسی سلطنت کے مغربی کنارے کے ایک چھوٹے سے شہر میں ہوا تھا۔ یہ بچہ کم عمری میں ہی یتیم ہو گیا تھا، اسے زندہ رہنے کی خاطر بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے، کبھی عورتوں کے پاؤں سے پیڑو تک زیر جامہ تیار کرنے والے کارخانے میں مشقت کرکے کمایا تو کبھی پتھر تراشنے والی فیکٹریوں میں کام کرکے۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران کوستیا نام کے اس لڑکے کی قسمت میں یکسر تبدیلی آ گئی تھی۔ روکوسووسکی ابھی اٹھارہ سال کا نہیں ہوا تھا لیکن اس نے فوجیوں کو قائل کر لیا کہ وہ اپنی عمر سے دو برس بڑا ہے اور اپنے شہر سے بھرتی کیے جانے والے فوجی دستے میں اپنا نام لکھوانے میں کامیاب ہو گیا۔ یوں کانستینتین نے روس کی فوج میں ایک عام سپاہی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینا شروع کی تھیں۔ جلد ہی وہ گھڑ سوار دستے کا چھوٹا افسر بن گیا تھا۔

1917 روکوسووسکی کی زندگی میں ایک نیا موڑ لے کر آیا۔ زار کے روس میں انقلاب کی رو چل نکلی تھی۔ انقلابی رجحان نے فوج میں بھی جگہ بنا لی تھی۔ کانستینتین نے سرعام جنگ کے تسلسل کی مخالفت شروع کر دی تھی اور وہ بالشویکوں کے خیالات پر زیادہ توجہ دینے لگا تھا۔ روکوسووسکی نے اکتوبر کی مسلح بغاوت کی حمایت کی تھی، جس نے سوویت حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ اب وہ سرخ فوج میں خدمات سرانجام دینے لگا تھا۔ مختصر عرصے میں اس نوجوان پرعزم افسر نے پلٹن کے سربراہ کے معاون سے گھڑ سوار ڈویژن کا کمانڈر بننے کا سفر طے کر لیا تھا۔

وہائٹ گارڈز کے خلاف، جو ملک کو شہنشاہی کی جانب واپس لانا چاہتے تھے، لڑائیوں میں جرات دکھانے پر کانستینتین کو ”سرخ پرچم“ نامی اعزاز، جو سوویت روس کا پہلا میڈل تھا، دو بار دیا گیا۔ اس کے بعد روکوسووسکی کیولری رجمنٹ کمانڈر، بریگیڈ کمانڈر، ڈیو کمانڈر اور کور کمانڈر کے عہدوں تک کی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے پہنچے تھے۔

روکوسووسکی نہ صرف بہادری میں بلکہ سپہ سالارانہ اوصاف میں بھی ممتاز تھے تاہم نظری تعلیم کی کمی تھی۔ چنانچہ نوجوان افسر کو ہائر کیولری کمانڈ کورس کرنے کے لیے بھیج دیا گیا تھا جہاں روکوسووسکی کو شمشیر زنی اور نیزہ بازی کے پینترے سکھائے گئے تھے۔ بیس پچیس برس کے بعد ان کے اس فن حرب سے شناسائی کا مظاہرہ بہت سوں نے دیکھا تھا، جس کی پریس میں دھوم مچ گئی تھی۔ سوویت یونین کے مستقبل کے یہ دونوں مارشل ژوکوو اور روکوسووسکی شمشیر زنی کے کھیل کے مقابلوں میں آمنے سامنے ہوا کرتے تھے۔ اکثر روکوسووسکی ہی جیتا کرتے تھے۔

اس زمانے میں لکھی گئی افسروں کی رپورٹ میں درج ہے : ”روکوسووسکی، اچھی طرح سے تیار کمانڈر، عسکری معاملات میں دلچسپی کے حامل اور ان معاملات میں ہونے والی پیش رفت کو گرفت میں لینے کے خواہاں۔ جنگجو کمانڈر، قوت ارادی اور توانائی سے بھرپور، قابل قدر اور پیہم ترقی میں سرشار۔“

مگر وہ دور تھا ہی ایسا کہ ان سے زیادہ صفات کا حامل شخص بھی محفوظ نہیں رہ پاتا تھا۔ سوویت یونین کے سربراہ، ایوسف سٹالن، جنگ کی ہیبت کے باعث پہلے سے بھی زیادہ شکی طبیعت ہو گئے تھے، انہیں ہر طرف سازشیں ہوتی دکھائی دینے لگی تھیں۔ اس کا ظاہر ہے فوجیوں نے فائدہ اٹھایا تھا۔ اپنے مد مقابل سے جان چھڑانے کے لیے اس کو ”عوام دشمن“ فہرست میں شامل کرائے جانے کے لیے گمنام خط لکھ دینا ہی کافی ہوا کرتا تھا۔ سرخ فوج کی قیادت کا ایک بڑا حصہ جیلوں اور بیگار کیمپوں میں دھکیل دیا گیا تھا۔

روکوسووسکی بھی اس سے نہ بچ سکے تھے۔ اگست 1937 کو انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا۔ جنرل پر فن لینڈ اور جاپان کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگا دیا گیا تھا۔ ان دنوں تفتیش کے لیے تشدد برتنے کے قرون وسطٰی کے سے طریقے برتے جاتے تھے۔ لوگ وہ بھی تسلیم کر لیا کرتے تھے جو کچھ ان سے سرزد نہیں ہوا ہوتا تھا۔ اس لیے دوسروں کے نام لے دیا کرتے تھے تاکہ سفاکی کا مزید نشانہ بنے رہنے سے بچ سکیں۔ تاہم روکوسووسکی سمجھتے تھے کہ بہتر ہے تسلیم کر لیں کیونکہ اس طرح تشدد کا امکان کم سے کم رہ جاتا تھا۔ ان کو ان کے حال پہ یہ سمجھ کے رہنے دیا گیا کہ بالآخر دل ٹوٹ ہی جائے گا۔ پھر اعلٰی عہدوں پہ فائز روکوسووسکی کے دوستوں کی کوششوں سے انہیں مارچ 1940 میں نہ صرف رہا کر دیا گیا بلکہ ان کے تمام حقوق مکمل طور پر بحال کر دیے گئے تھے۔

اعصابی تشنج اور مہلک خطرات فوج کا حصہ ہوتے ہیں۔ کام ہی چونکہ ایسا ہوتا ہے۔ لیکن اذیت رسانی اور توہین بالکل دوسرا معاملہ ہوتا ہے اور وہ بھی جب ایسا وہ لوگ کر رہے ہوں جو ایک زمانے میں زیر عتاب شخص کو اپنا دوست کہا کرتے تھے۔ روکوسووسکی بہادری کے ساتھ اس امتحان سے گزرے تھے۔ اس برے وقت کو کاٹنے میں ان کی مدد اس یقین نے کی تھی کہ گھر پہ ان کی پیار کرنے والی اہلیہ ان کی منتظر ہے۔ کانستینتین اور یولیا کا بیاہ 1923 میں ہوا تھا۔ جلد ہی ان کی بیٹی اریادنا پیدا ہو گئی تھی۔

Konstantin Rokossovsky (left) and Georgy Zhukov (right). British Field Marshal Montgomery (centre )

روکوسووسکی وجیہہ مرد تھے۔ ان کے عاشقانہ مزاج کی داستانیں مشہور تھیں۔ کانستینتین کے رومان کا تاحتٰی ایک وقت میں سوویت فلم انڈسٹری کی حسین ترین اداکارہ ولنتین سیرووا سے بھی تذکرہ رہا تھا۔ مگر اصل میں روکوسووسکی کے بارے میں جاننے والے معاصر محقیقین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچی سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور انہوں نے رومان پرستی کو دل میں جگہ پانے ہی نہیں دی تھی۔

ہاں البتہ اس معروف سپہ سالار کی زندگی میں ایک اہم واقعہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ضرور پیش آیا تھا۔ روکوسووسکی کے کنبے نے انہیں بہت عرصے سے نہیں دیکھا تھا۔ ان کی بیوی اور بیٹی کو ماسکو سے نکال کر کہیں سائبیریا میں محفوظ مقام پر منتقل کیا جا چکا تھا۔ سٹالن گراڈ کی سخت لڑائی کے دوران انہیں محاذ جنگ پہ کسی سے پیار ہو گیا تھا۔ جنگی حالات میں اکثر جرنیل اور افسر ”عارضی“ بیویاں بنا لیا کرتے تھے۔ کمان اس عمل سے صرف نظر کرتی تھی۔ سمجھتی تھی کہ اگر انسان کو ہر روز خطرات کا سامنا ہو تو اسے کچھ تسکین بھی درکار ہوتی ہے۔ فوجی ڈاکٹر گالینا تالانووا، جو کر رہی تھیں اس سے وہ پوری طرح آگاہ تھیں۔ انہوں نے کمانڈر محاذ سے قریبی ناتا گانٹھ لیا تھا، جس کی وجہ سے ڈاکٹر موصوفہ کا وقار خاصا مجروح ہوا تھا۔ معاصرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعی پیار تھا، دل کی کہی بات تو موڑی نہیں جا سکتی۔ جنگ کے اختتام کے نزدیک گالینا نے ایک بچی کو جنم دیا تھا جس کا نام نادیژدا رکھا گیا تھا۔ روکوسووسکی نے بچی کو اپنا خاندانی نام دے دیا تھا۔ کیا ان کی دھوکا کھائی ہوئی اہلیہ کو اس بات کا علم تھا؟ جی ہاں وہ باعلم تھیں اور انہوں نے شوہر کی یہ تقصیر معاف کر دی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ کانستینین نے حسد کا کوئی اور موقع فراہم نہیں کیا تھا۔

1940 کے موسم بہار میں بحال شدہ جرنیل کو کیف کے عسکری حلقے میں متعین فوج کی کمان کرنے کی خاطر بھیجا گیا تھا۔ یہ عہدہ روکوسووسکی کے لیے ایک اچھا موقع تھا کہ وہ اب اپنے سابق پیشہ ورانہ رقیب گیارگی ژوکوو کے ساتھ جرنیل کا عہدہ پانے کا ڈوئیل لڑیں۔ مگر اس موقع پر انہیں معلوم ہوا تھا کہ ”عوام دشمن“ کا لیبل ایک بار لگ جائے تو یہ کلنک کا داغ دھوئے نہیں مٹ پاتا۔ سٹالن نے باوجود اس کے کہ وہ ذاتی طور پر روکوسووسکی کو جانتے تھے اور ان کی صلاحیتوں کے معترف تھے، دل میں سپہ سالار پر عدم اعتماد کی چنگاری کو سلگتے رہنے دیا تھا۔ اس کی جلن کسی اور طرح محسوس کرائی گئی تھی۔

1941 کا موسم خزاں جنگ عظیم دوم کے اولین ماہ تھے۔ سرخ فوج مزید مشرق کی جانب دھکیلی جا رہی تھی۔ شدید مزاحمت ماسکو کے نواحی جنگلوں تک محدود ہو کر کے رہ گئی تھی۔ جرمن کمان کے مطابق ایک زمانے کی قوی سوویت یونین پہلے ہی جانکنی کے مرحلے سے گزر رہی تھی اور کسی بھی وقت اس کا تمت بالخیر ہونے والا تھا۔ لگتا تھا کہ روسیوں کے تمام وسائل، عسکری سازوسامان تقریباً ختم ہو چکے ہوں اور یہ سب سوویت یونین کے دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کرتی ہوئی فیلڈ مارشل قان بوک کی ڈویژنوں سے دو گنا کم تھے۔ جی ہاں ماسکو میں جرمن کمانڈنٹ پہلے ہی مقرر کیا جا چکا تھا۔

لیکن جرمن ٹینک جس قدر سوویت دارالحکومت کے نزدیک تر ہو رہے تھے، دفاعی مزاحمت بھی شدید تر ہوتی جا رہی تھی بلکہ اس کی حفاظت کرنے والوں نے بڑھ بڑھ کر جرمنوں پہ حملے بھی کرنے شروع کر دیے تھے۔ اس وقت سوویت یونین کے مرکزی پریس میں ”کمانڈر ایر“ کا نام سامنے آنے لگا تھا۔ ”کمانڈر ایر کے جنگجو، جرمنوں کے ٹینکوں اور خودکار ہتھیاروں کے سامنے ڈٹ گئے۔“ ”کمانڈر ایر کے سپاہیوں کے ایک حصے نے مسلح افواج سے علیحدہ ہو کر ایک اور فریضہ سنبھال لیا۔“ ”کمانڈر ایر کی ایک ٹکڑی نے جرمنوں کو نقطہ ب سے دھکیل دیا۔ جرمنوں کا شدید جانی نقصان۔“

تاہم 20 اکتوبر 1941 کے اخباروں میں چھپا تھا: ”کمانڈر کامریڈ روکوسووسکی کے جوانمردوں کا جرمنوں پہ شدید حملہ، ساٹھ ٹینک جلا کر بھسم کر دیے گئے۔“ کیا وجہ تھی کہ بہادر کمانڈر کا نام مخفف میں لکھنے کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ ہو نہ ہو دو مقاصد سامنے تھے۔ پہلا یہ کہ ظاہر نہیں کرنا چاہ رہے تھے کہ جرمنوں کے دانت ایک سابق ”عوام دشمن“ کھٹّے کر رہا تھا۔ دوسرے یہ کہ اگر روکوسووسکی غلطی کے مرتکب ہو جاتے تو لکھا جا سکتا تھا کہ ان کی حیثیت بیکار میں بحال کی گئی تھی۔

”کمانڈر ایر“ اور دوسرے سپہ سالاروں کی نگرانی میں ماسکو کے نواح میں اختیار کی جانے والی عسکری کارروائی کامیاب رہی تھی۔ فسطائی فوج کو ماسکو سے دور دھکیل دیا گیا تھا۔ 1942 میں روکوسووسکی کی زیر کمان فوج نے سٹالن گراڈ کے نواح میں جرمن افواج کی کمر توڑنے میں حصہ لیا تھا۔ یہ لڑائی جنگ عظیم دوم کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی تھی۔ سٹالن گراڈ کے نواح میں جرمن فوج کی شکست ہٹلر کے جرمنی کے خاتمے کا آغاز تھا۔

1944 کے موسم گرما کے آخر میں روکوسووسکی کے، جو تب تک مارشل اور سویت ہیرو کے القاب پا چکے تھے، زیر کمان فوجی دستے وارسا میں داخل ہو گئے تھے۔ یہاں ایک بار پھر ماضی نے خود کو منوا لیا تھا۔ نومبر کے وسط میں حکومتی ٹیلیفون کی گھنٹی بجی تھی۔ فون سٹالن کر رہے تھے۔

”کامریڈ روکوسووسکی آپ کو دوسرے بیلاروسی محاذ کا کمانڈر مقرر کیا جاتا ہے۔“ مسلح افواج کے کمانڈر اعلٰی نے کہا تھا۔ یہ بات روکوسووسکی کے لیے غیر متوقع نہیں تھی۔ انہوں نے دل کڑا کر کے پوچھ ہی لیا تھا: ”ایسی نامہربانی کیوں کی جا رہی ہے کہ اہم ترین مقام سے دوسرے درجے کے مقام پر فائز کیا جا رہا ہے؟“

ایک طویل خاموشی کے بعد جیسے کہ روکوسووسکی کی بات سنی ہی نہ ہو، سٹالن نے کہا تھا: ”پہلے بیلاروسی محاذ کا کمانڈر ژوکوو کو مقرر کیا گیا ہے۔ برلن پہ آپ، ژوکوو اور کونیو (یوکرینی محاذ کے کمانڈر) مل کر کے قبضہ کریں گے۔“

اس طرح سے روکوسووسکی اور کونیو کو ’برلن آپریشن‘ میں معاونانہ کردار دے دیا گیا تھا۔ جرمن دارالحکومت پہ پہلا وار کرنا ژوکوو کا حق ٹھہرایا گیا تھا۔

24 جون 1945 کی ”فتح پریڈ“ کی سلامی کماندار اعلٰی سٹالن کو لینی تھی۔ تب کی روایات کے مطابق کماندار اعلٰی کو گھوڑے پر سوار ہو کر سلامی لینی ہوتی تھی۔ لیکن سٹالن اسپ سواری سے آگاہ نہیں تھے۔ پریڈ کے روز تک وہ ایسا کرنا سیکھنے کی کوشش کرتے رہے تھے لیکن سیکھ نہیں پا رہے تھے۔ آخر کار سٹالن نے پریڈ کی سلامی لینے کی ذمہ داری گیارگی ژوکوو کو سونپ دی تھی۔ جب تک سٹالن چبوترے پہ ایستادہ رہے تب تک سفید براق اور سیاہ ابلق گھوڑوں پر فاتح مارشل گیارگی ژوکوو اور کانستینتین روکو سووسکی سوار رہے تھے۔

پہلی بار ملک کے اہم ترین چوک پر نعرہ گونجا تھا، ”آپ کو فتح کے تہوار کی مبارک باد دیتا ہوں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).