پاکستان میں سب سے جھگڑالو جوڑا کامیاب ارینج میرج کے لیے اپنی مثال دیتا ہے


ہم نے پچھلے دو مضامین میں میاں بیوی کے تعلق کی مختلف جہتوں پہ بات کی۔ پہلے مضمون میں اس بات کا تذکرہ ہوا کہ اس رشتے کے بننے سے پہلے فریقین عموماً کئی نفسیاتی مسائل سے گزر چکے ہوتے ہیں جبکہ دوسرے مضمون میں بات ہوئی کہ ایک نئے بننے والے تعلق میں جنسی حوالے سے کیا مسائل آسکتے ہیں اور پچھلے نفسیاتی مسائل اس رشتے پہ کیا اثر ڈالتے ہیں۔

یہ اس سلسلے کا چھٹا مضمون جبکہ میاں بیوی کے تعلق پہ تیسرا۔ اس میں ہم بات کریں گے ان مسائل پہ جو شادی کے بعد پیدا ہوتے ہیں اور بطور مرد اور عورت دونوں کو الگ الگ جھیلنے پڑتے ہیں۔

ہم نے پچھلے مضمون میں بھی اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ عموماً فریقین ایک دوسرے سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ اس کی جہاں ایک وجہ ان کے پرانے ٹوٹے رشتے اور ہر نئے بننے والے رشتے پہ بے اعتباری ہوتی ہے وہیں پہ ایک بڑی وجہ مرد اور عورت کا بطور شوہر اور بیوی معاشرے میں پہلے سے طے شدہ کردار بھی ہے۔ بہت سے فرائض غیر حقیقی نظریات کی بنیاد پہ وضع کیے گئے، اور بہت سے نظریات جب وضع کیے گئے ہوں گے تو ممکن ہے درست ہوں، لیکن اب وقت اور ماحول بدلنے کے ساتھ ساتھ وہ کردار آج کے زمانے بہت غیر موزوں اور ناقابلِ عمل ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ ایک عام متوسط گھرانے میں گھر کا سربراہ کمانے کی ذمہ داری پوری کیا کرتا تھا۔ اعلیٰ تعلیم کی حد ایف اے، بی اے تک ہونا بھی کافی سمجھا جاتا تھا۔ عموماً نوکریاں صبح 9 سے شام 5 بجے تک ہوتی تھی اور گھر آنے والا فارغ ہوتا تھا کیوں کہ افسر فون پہ یا لیپ ٹاپ پہ کوئی گھر بیٹھے کرنے والا کام فراہم نہیں کر سکتا تھا۔

یہ چند مثالیں ہیں اب اندازہ لگائیے ٹیکنالوجی بدلنے کے ساتھ ساتھ کتنے ہی نئے شعبے پیدا ہوئے اور ان سے متعلق ذمہ داریاں الگ۔ یعنی اصولی طور پہ مرد کا کردار بدلنا چاہیے تھا۔ لیکن مثالی شوہر کی تعریف آج بھی وہی ہے جو پچھلی صدی میں 8 گھنٹے کام کرنے والے شوہر کی تھی۔

اسی طرح بدلتے ماحول، معاشی مسائل، تعلیم کی دوڑ، شکل و صورت کے حوالے سے پہلے سے زیادہ خوبصورت اور طرح دار لگنے کا تقاضا، اس سب نے عورت کو بہت کچھ ایسا کرنے پہ مجبور کیا ہے جو بیوی کی مثالی تعریف پہ پورا نہیں اتر سکتا۔

آج کل لڑکے کے لیے ایک محفوظ مستقبل رکھنے والی نوکری پانا پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ خاندانی بڑے بڑے گھر حصے بخرے ہو کے کابک بن چکے ہیں اور بہت سوں کو ایسا کابک بھی نصیب نہیں۔ جبکہ مثالی شوہر کی سب سے پہلی یہی دو خصوصیات دیکھی جاتی ہیں۔ اور چوں کہ نوکریاں کم ہیں اسی لیے ان پہ تقرری کا معیار اور زیادہ اونچا ہے یعنی زیادہ تعلیم زیادہ تجربہ۔ تعلیم بھی کسی مہنگے معیاری ادارے سے جو لہجے سے چھلکے۔ یعنی اس حوالے سے وہ فرد جو جذباتی طور پہ پریشان ہے، جنسی اعتبار سے گھٹن کا شکار ہے وہ معاشی دباؤ کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ شہروں میں بہت سے عہدے ایسے بھی ہیں جہاں تک خواتین کی رسائی اس لیے آسان ہے کیوں کہ ان کو ڈرا کے رکھنا اور کم تنخواہ پہ زیادہ کام کروانا نسبتاً آسان ہے۔

ایسے میں ایک فرد اپنے تعلیمی شعور کی بنیاد پہ اسی شعور کی حامل شریکِ حیات نہیں پا سکتا کیوں کہ ایسی لڑکی کے والدین کو معاشی طور پہ زیادہ مستحکم داماد چاہیے۔ اور شاید لڑکی بھی بہتر معاشی حالت رکھنے والا شوہر چاہے کیوں کہ اسے پتا ہے کہ اس ”ڈیل“ میں اس پہ دوہری ذمہ داری ویسے ہی ہوگی۔

متوسط طبقے میں ایک بڑی تعداد میں خواتین روزگار کے دوڑ میں شامل ہونے پہ مجبور ہیں۔ ان کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کیرئیر اورئینٹڈ نہیں بننے دیا جاتا پتا نہیں کتنی لڑکیاں اچھی ڈیزائنر، بیوٹیشن، شیف، ڈاکٹر اور انجینئیر ہونے کے باوجود یا کسی بھی شعبے میں مہارت حاصل کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اسے کیرئیر کے طور پہ اپنانے کی اجازت نہیں پاتیں۔ اور بیوی کے قدیم کردار کی تعریف کی بنیاد پہ انہیں اچھی صفائی، دھلائی، پکائی، سکھائی جاتی ہے جو یقیناً ان کے کام بھی آتی ہے کیوں کہ جہاں مرد کا کردار معاشرتی اور معاشی تبدیلی کے ساتھ بدلا ہے وہاں عورت کے کردار میں گھریلو اور معاشی ذمہ داریاں جمع ہوکر دوگنی ہو گئی ہیں۔

اور یہ بھی ایسے ہی نہیں ہوا بلکہ پہلے اسے باور کروایا جاتا ہے کہ اس کی اوّلین اور واحد ذمہ داری شوہر اور اس کے گھر والوں کی خدمت ہے اور جن الفاظ میں بتایا جاتا ہے وہ ممکنہ حد تک اس کی سیلف ریسپیکٹ اور اپنی ذات پہ ہونے والے اعتماد کو ختم کردیتے ہیں۔ اور پھر جب معاشی مسائل بڑھتے ہیں پہلے شوہر اپنے معاشرتی کردار کو نبھانے کی کوشش میں ان مسائل سے اکیلے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتا ہے اور جب اوور ٹائم کرکے بھی خرچے پورے نہیں کرپاتا تو مجبوراً بیوی کو اس معاشی دوڑ میں ساتھ دینے کے نکلنا پڑتا ہے۔ اور چوں کہ عمومی نظرئیے کے تحت گھر چلانا شوہر کی اور گھرداری چلانا بیوی کی ذمہ داری ہے دونوں اپنے احساس شرمندگی میں ایک دوسرے کی کوتاہیوں کی بڑھ بڑھ کے نشاندہی کرتے ہیں۔

بجائے اس کے کہ معاملات افہام و تفہیم سے طے ہوں الزامات طعنے اور تذلیل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ سب صورتحال زیادہ بہتر طور پہ سمجھنے کے لیے پچھلے دونوں مضامین بھی ذہن میں رکھیے تاکہ ہمیں اس حقیقت کا ادراک رہے کہ جب فریقین جنسی اور جذباتی اعتبار سے ایک دوسرے کی طرف بالکل ملتفت نہیں ساتھ ہی رشتے نبھانے کے چھوٹے چھوٹے اصولوں سے ناواقف بھی ہیں ایسے میں یہ مسائل مزید الجھ جاتے ہیں۔ یہ مسائل ذہنی صدمے میں تب بدلتے ہیں جب والدین کی قسمیں، اولاد کا مستقبل اور معاشرے میں بدنامی کا خوف انہیں یہ غیر مستحکم اورتکلیف دہ رشتہ نبھانے پہ مجبور کرتے ہیں۔ اس سے کہیں آسان انہیں بند دروازوں کے پیچھے غیر ازدواجی تعلقات نبھانا لگتا ہے۔

پاکستان جیسے معاشروں میں جب میاں بیوی جھگڑا کرتے ہیں تو انہیں اس بندھن میں باندھنے والے یا تو دور کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں یا بہت غیر منطقی حل بتا رہے ہوتے ہیں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مغربی ممالک میں میاں بیوی شیر وشکر رہتے ہوں گے۔ جہاں مشرق میں یہ رشتہ چلاتے رہنا زبردستی لازم ہے وہاں مغرب کے لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہاں ایسا نہیں ہے لیکن دونوں جگہ معیاری رشتہ نبھانا نہیں سکھایا جاتا۔ اسی لیے ہمیں سب سے زیادہ مسائل بھی اسی رشتے میں نظر آتے ہیں۔

اگر مشرق میں ایک فرد اسی ایک فریق سے ساری زندگی نوک جھونک میں گزارتا ہے تو مغرب میں اکثریت یہی ”ایکٹوٹی“ الگ الگ فریق کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں۔ یعنی یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ بنیادی گر رشتے اچھے طرح سے نبھانا ہے صرف اس کا زبانی اعلان کرنا کافی نہیں۔ جیسا کہ ہمارے یہاں رواج ہے خاندان کا سب سے پرابلمیٹک جوڑا جس کی کبھی آپس میں نہیں بنی وہ ارینج میرج کے کامیاب ہونے کے لیے اپنی مثال دیتا ہے۔

جب کہ جدید تحقیق کے مطابق وہ جوڑے جو پہلے آپس میں دوست رہے ہوں یا جو شادی کے بعد دوستانہ تعلق استوار کرنے میں کامیاب ہوجائیں ان میں طلاق کی شرح نہ صرف کم ہوتی ہے بلکہ ان کا تعلق خوشگوار بھی ہوتا ہے۔ اگر میاں بیوی روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے فیصلے مل جل کر کریں۔ معاشی اور گھریلو ذمہ داری افہام و تفہیم سے بانٹیں تو بہت سے مسائل اول تو مسائل لگتے ہی نہیں اور اگر کچھ برداشت سے کچھ بڑھ بھی جائیں تو ایک دوسرے کے سہارے خوش اسلوبی سے حل ہوجاتے ہیں۔ آپ والدین کو نہیں بدل سکتے آپ ماضی نہیں بدل سکتے لیکن تھوڑی سی کوشش سے حال میں آپس کا رشتہ بہتر کرسکتے ہیں۔ اور اولاد کو تھوڑا اپنے تجربے کا سہارا دے کر قدرتی اور جذباتی کشش کی بنیاد پہ رشتہ استوار کرنے کی اجازت دی جائے تو وہ پچھلی نسل سے بہتر زندگی گزار سکیں گے۔

لیکن یہ واضح رہے کہ سمجھوتا عزت اور محبت کی موجودگی میں کیا جاسکتا ہے ایک پرتذلیل، پرتشدد رشتہ جہاں کوئی ایک صرف قربانیاں دے رہا ہو اور کوئی دوسرا انسانیت سوز رویہ اپنائے ہو ایسا رشتہ نبھانے کا مشورہ ماہرینِ نفسیات بھی نہیں دیتے۔

اس رشتے کے متعلق جو کچھ زیر بحث لایا جائے کم ہے لیکن فی الحال بات یہیں سمیٹتے ہیں اگلا مضمون ایک اور دلچسپ رشتے کے بارے میں ہوگا جس کا منفی ہونا آفاقی سچائی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ سمجھ تو آپ گئے ہوں گے۔

اسی بارے میں
محبت میں ناکامی کا صدمہ شادیاں متاثر کرتا ہے
شریک حیات سے جنسی ترجیحات پہ بات کرنا “ڈرٹی ٹالک” نہیں

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima