ملالہ کی ٹویٹس پر پاکستانی و انڈین صحافیوں میں گرما گرمی


ملالہ
ملالہ نے ٹوئٹر پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر لکھا کہ ‘مجھے ان چار ہزار افراد کے متعلق اطلاعات پر گہری تشویش ہے جنھیں جبراً گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو، پابندیوں اور قدغنوں کا سلسلہ جو گذشتہ 40 روز سے جاری ہے جہاں پاکستان اور انڈیا کے مابین سیاسی و سرحدی کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے وہی اس پر پاکستان اور انڈیا کے صحافی بھی حساس دکھائی دیتے ہیں۔

یہ معاملہ جو دیگر ملکی و بین الاقوامی خبروں کے وجہ سے سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں پیچھے چلا گیا تھا، ایک مرتبہ پھر اس وقت موضوع بحث بنا جب پاکستان سے تعلق رکھنے والی امن کا نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی صورتحال کے بارے میں سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر سنیچر کو ایک سے زائد ٹویٹس کیں۔

اور اس کے جواب میں انڈین صحافی برکھا دت نے اتوار کو انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جس کے بعد پاکستان اور انڈیا کے صحافیوں میں لفظی گولہ باری کا آغاز ہو گیا۔

ملالہ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر بات کرتے ہوئے لکھا کہ ‘مجھے ان چار ہزار افراد کے متعلق اطلاعات پر گہری تشویش ہے جنھیں جبراً گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے جن میں بچے بھی شامل ہیں، ان طلباء کے بارے میں بھی جو گذشتہ 40 سے زائد دنوں سے سکول نہیں جاسکے اور ان لڑکیوں کے بارے میں ، جو گھر چھوڑنے سے ڈرتی ہیں۔

ملالہ نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ ‘انھوں نے گذشتہ چند ہفتے اس کوشش میں گزارے کہ وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور طلبا سے بات کر سکیں۔’

ملالہ یوسفزئی نے اقوام متحدہ کے رہنماؤں سے بھی مطالبہ کیا وہ کشمیر کے امن کے لیے اقدامات کریں اور وہاں کے لوگوں کی آواز کو سنیں اور وہاں کے بچوں کو حفاظت کے ساتھ سکول واپس جانے میں مدد کریں۔

ملالہ کے ان پیغامات پر جہاں پاکستان کے ٹویٹر صارفین اور صحافیوں نے انھیں سراہا وہی انڈیا کے ٹویٹر صارفین نے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا سے تعلق رکھنے والی ایک نامور صحافی برکھا دت نے انھیں ٹوئٹر پر جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ‘مجھے ملالہ کو دیکھ کر مایوسی ہوئی ہے کہ وہ کشمیر کے متعلق پاکستانی بیانیہ بتا رہی ہیں جب کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ کبھی اپنے ملک واپس نہیں لوٹ سکتیں کیونکہ انھیں وہاں لڑکیوں کے سکول جانے کے حقوق پر آواز اٹھانے پر گولی ماری گئی تھی۔’

انڈین صحافی برکھا دت کا یہ ٹویٹ کرنا تھا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک صحافی مہمل سرفراز نے انھیں جواب دیا کہ ’کہ ‘یہ صرف پاکستان کا بیانہ کیسے ہو سکتا ہے؟ لہذا تمام انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے غلط ہیں، بین الاقوامی میڈیا کے ادارے غلط ہیں حتیٰ کہ انڈیا کے دی ٹیلی گراف، انڈین ایکسپریس، دی ہندو جیسے دیگر اخبارات بھی غلط ہیں۔ آپ ملالہ کو یاد کروا رہی ہیں کہ وہ پاکستان واپس نہیں آ سکتیں کیونکہ انھوں نے کشمیر کے بارے میں بات کی جو آپ کو مایوس کن لگی ہے۔’

جس کے بعد دونوں صحافیوں میں نوک جھوک کا سلسلہ چلتا رہا اور متعدد ٹویٹس کے تبادلے کے بعد انڈین صحافی برکھا دت نے یہ جواب دیا کہ ‘وہ (ملالہ) جس بارے میں بھی چاہیں ٹویٹ کر سکتی ہیں۔ میں انھیں، آپ کو یا خود کو کبھی اس آزادی سے منع نہیں کر سکتی۔ میں صرف اس ستم ظریفی کی طرف توجہ دلا رہی تھی کہ وہ اس مسئلے کو اجاگر کر رہی ہیں جو کی آزادی انھیں بھی نہیں تھی۔ صرف یہ بات ہے۔ کشمیر پر ایک الگ بحث ہے۔’

جبکہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی سیاسی و سماجی کارکن شہلا رشید نے ٹوئٹر پر ملالہ یوسفزئی کو کشمیر میں جاری کشیدہ صورتحال پر آواز اٹھانے کے لیے شکریہ ادا کرتے ہوئے ٹویٹ کیا۔

اس بحث سے پاکستان کے وفافی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بھی دور نہ رہ سکے اور انھوں نے بھی برکھا دت کی ٹویٹ پر تنقید کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp