بوند بوند ایک نعمت


اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے پناہ نعمتوں سے نوازہ ہے۔ پانی ایک ایسی نعمت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ پانی فطرت کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ ہماری زندگی کا دارومیدار ہی پانی پر ہے اور اگر کہا جائے کہ پانی بقائے حیات ہے تو بجا نہیں ہوگا۔ صاف اور خالص پانی ہماری زندگی کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنی آکسجن۔ پانی ہماری خوراک نہیں مگر ہماری خوراک کا اہم جزو ہے۔ یہ پیاس بجھاتا ہے اور تسکین کا سبب بنتا ہے۔ پانی ہی ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے جو ہمارے جسم میں موجود آرگنز کو کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔ پانی جتنا صاف اورخالص ہوگا ہماری صحت اتنی ہی اچھی ہوگی۔ خراب اور گندا پانی وبائی امراض کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اگرچہ زمین کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن پینے کے لئے پانی کا صرف تین فیصد حصہ ہی قابل استعمال ہے۔

بین الاقوامی ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو تہائی سے زائد گھرانے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور ہر سال 53 ہزار بچے آلودہ پانی پینے کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آلودہ پانی کی وجہ سے ٹائیفائڈ، حیضہ، پیچش، اسہال اور ہیپیٹائٹس جیسی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تیس سے چالیس فیصد اموات آلودہ پانی پینے کے باعث ہی ہوتی ہیں۔

اس وقت پاکستان کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ ہے صاف پانی کا۔ گزشتہ بہتر سالوں سے پاکستان کی عوام اور ان کی نسلوں کی بقا کے لیے پانی کے معاملے میں ان کے حق ٖحیات سے کھلواڑ کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں پانی کے مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان کے کسان کو پانی میسر نہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان دو ہزار پچیس تک پانی کی شدید قلت کا شکار ہوگا اور ممکن ہے پاکستان خشک سالی کا بھی سامنا کرے۔

دو ہزار پچیس میں صرف چھ سال باقی ہیں مگر ہمارے ایوان میں بیٹھے حکمران اب بھی اپنی سیاسی جنگ میں مصروف ہیں، سب کو اپنے اقتدار اور کرسی کی فکر ہے مگر ملک میں موجود سنگین مسائل کی جانب کسی کی توجہ نہیں۔ عوام بھوک اور پیاس سے مررہی ہے مگر ناجانے حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ ناقص پالیسیوں اور کرپشن کے سبب پاکستان کے تقریبا تمام چھوٹے بڑے شہروں کو پانی کے بحران کا سامنا ہے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑاشہر ہے اور ہمارا انڈسٹریل ہب ہے۔ ایک کروڑستر لاکھ کی آبادی کے شہر کو اس وقت شدید پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ کراچی شہر کو ضرورت سے نصف پانی دستیاب ہے۔ شہر قائد کو روزانہ کی بنیاد پر تقریبا سو کروڑ گیلن پانی کی ضرورت ہے مگر شہر کو محض پچاس کروڑ گیلن پانی ہی مل پاتا ہے۔ لائنوں کے رساؤ کی وجہ سے تقریبا ستر کروڑ گیلن پانی ضائع ہوجاتا ہے، کراچی کے باسیوں کو صرف چالیس کروڑ گیلن پانی ہی مل پاتا ہے۔

شہر میں پانی چور مافیا بھی اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ سرگرم ہے مگر کیا کریں اس مافیا کو لگام ڈالے کون؟ عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے والی سندھ حکومت گزشتہ داہیوں سے انہیں پینے کے لئے صاف پانی تک نہ دے سکی۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اس شہر کے بڑے رئیسوں، امیروں اور وی آئی پیز کو تو پانی مل جاتا ہے مگر غریب عوام کے سامنے پانی کے بحران کا ڈھنڈورا کیوں پیٹا جاتا ہے؟

شہر قائد کے باسیوں کے لیے صاف پانی ایک ناممکن حصول بنتا جا رہا ہے۔ پہلے تو پانی میسر ہی نہیں جو مل جائے وہ نہائت مضر صحت۔ کراچی میں پانی کے بحران کی ایک اور بڑی وجہ یہاں کے صنعتی یونٹس ہیں۔ یہ صنعتی یونٹس شہر کے زیرزمین پانی کو تیزی سے ختم کر رہے ہیں۔ کراچی کے بیشترعلاقوں میں پانی آلودہ، گدلا اور جزوی میٹھا ہے اس کے علاوہ پانی میں آئل اور سوریج کے ذرات بھی موجود ہیں اور یہ آلودہ پانی شہریوں میں مضر صحت بیماریوں کی وجہ بھی بن رہا ہے۔ صاف پانی کے حصول کے لیے عوام کا پیسہ، وقت اور سکون سب برباد ہو رہا ہے۔ شہری آبادی روزبروز تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر اس کے باجود تیرہ برس سے حکومت شہریوں کو پانی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

پاکستان کا گنجان آباد اور زرعی پیداوار کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب کو بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ پنجاب فارسی زبان کا لفظ ہے جو دو الفاظ ’پنج‘ اور ’آب‘ سے مل کر بنا ہے۔ پنجاب کا مطلب پانچ دریاؤں کا علاقہ ہے مگر پانچ دریاؤں کے باوجود بھی پنجاب خشک ہوتا جا رہا ہے۔

ماہرین کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ صوبہ پنجاب کا مرکز اور ایک کروڑ سے زائد آبادی کے شہرلاہور میں پینے کے صاف پانی کی قلت بڑھتی جا رہی ہے اور اگلے دس سالوں تک پینے کے صاف پانی کے ذخائر ختم ہو جائیں گے۔ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے اور کئی مقامات پر تو پانی کی سطح سو فٹ سے بھی نیچے جا چکی ہے اور اب تو شہر لاہور کے مکین بھی پانی کی بڑھتی ہوئی کمی کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ پانی کا یہ مسئلہ مستقبل قریب میں مزید گھمبیر ہوگا۔

بھارت پاکستان کا پانی روک کرآبی دہشتگردی کے ذریعہ پاکستان کو بنجر بنانے کی سازش کر رہا ہے مگر جب مون سون کے موسم میں بھارت سیلابی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو وہ اپنے دریاؤں کا سیلابی پانی پاکستان کے لئے کھول دیتا ہے جس سے پاکستان میں سیلاب جیسی آفات پیدا ہوتی ہیں اور ہر سال یہ سیلاب پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ ڈیموں کی کمی اور بارشوں کے باعث گزشتہ چند سالوں سے سب سے زیادہ کسان طبقہ متاثر ہوا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران اب بھی ڈیموں کی تعمیر کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔

دیا میربھاشا اور مہمند ڈیم کے لئے فنڈ مہم تو بھرپور انداز سے شروع کی گئی مگر حکومتیں اور اقتدار بدلتے ہی شاید حکمرانوں کی ترجیحات بھی بدل گئیں اور دونوں ڈیموں کی تعمیر شرمندہ تعبیر نہ ہو سکی۔ پاکستان کی سرزمین قدرتی وسائل سے مالامال ہے مگر حمکرانوں کو خواب غفلت سے کون جگائے؟ پاکستان میں پینے کے صاف پانی سے لے کر زارعت میں استعمال ہونے والے پانی کی کمی ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو ڈیم کی تعمیر کی جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، پاکستان کی عوام کو بھی اپنے مستقبل اور آنے والی نسلوں کا سوچنا ہوگا۔ پانی کو ضائع کرنے سے گریز کریں۔ ڈیمز کی تعمیر میں فنڈز دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ہمیں اپنی ترجیحات بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کی بقا اور آنے والی نسلوں کے لیے ہمیں پانی بچانا ہے، ڈیم بنانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).