ورزش اپنے آپ سے محبت کی نشانی ہے


سالوں پہلے میں نے اپنے پسندیدہ ترین میگزین ”دھنک“ میں ایک جملہ پڑھا تھا جو مجھے وقتاً فوقتاً ستاتا رہا ہے۔ ”یاد رکھیے ورزش اس وقت تک بے کار ہے جب تک کی نہ جائے۔“

کہتے ہیں کہ انسانی جسم حرکت کے لئے بنا ہے۔ بیٹھ گئے تو گئے کام سے۔ حرکت میں ویسے بھی برکت ہے۔ میں نے خود بھی ادھر ادھر لوگوں کو متحرک دیکھا۔ کسی نہ کسی طریقے سے کسی نہ کسی اکٹیویٹی میں مصروف ہیں۔ کوئی جوگنگ کر رہا ہے، کوئی سایئکلنگ۔ اچھا موسم ہے تو کوئی لمبی واک کر رہا ہے، سردیوں میں اسکینگ کر رہے ہیں۔ جسمانی طور پر فٹ ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جن کا بدن کسی چٹان کی طرح نظر آتا ہے اور خواتین ریت کی گھڑی کی طرح۔

یہ سب میں کافی عرصے سے اپنے وفادار ساتھی صوفے پر لیٹی چیپس سے دل بہلاتی بغور دیکھتی رہی ہوں۔ گھر کے پیچھے ایک جنگل ہے میرے لونگ روم کی کھڑکی سے اچھا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ سردی گرمی بارش، برفباری کوئی موسم ان کی راہ کی رکاوٹ نہیں بنتا۔ کسی دن کنڈرگارٹن کے بچے اپنی ٹیچرز آنٹیوں کے ساتھ ننھے ننھے قدموں سے جنگل کی پگڈنڈی پر قطار بنائے رواں دواں نظر آتے، بہت پیارے لگتے ہیں۔ کبھی سینئر سیٹیزنز کا گروپ اپنے لیڈر کی رہنمائی میں اسکینگ کی چھڑیاں ہاتھوں میں تھامے خراماں خراماں چلتے دکھائی دیتے تو میں کھڑکی سے لگی ان کی ہمت اور لگن کی داد دیتی ہوں۔

خود فعال ہونے کا خیال آتا تو تھا لیکن جھٹک دیا جاتا تھا۔ کچھ سال تو یوں خود کو بہلاتی رہی کہ بھئی گھر کے سارے کام کرتی ہوں، بچوں کے پیچھے دوڑتی بھاگتی رہتی ہوں، دو دو جاب کرتی ہوں، بچوں کو ان کی اسپورٹس سرگرمیوں میں لاتی لیجاتی ہوں۔ بس کافی ہے نا۔ پھر دماغ نے زیادہ ہی کچوکے دینے شروع کیے تو جاب پر گاڑی کے بجائے سایئکل پر آنا جانا شروع کیا کہ کچھ تو جسمانی حرکات ہوں۔ لیکن ایک بار شارٹ کٹ کے چکر میں جنگل سے گزرتی ایک پگڈندی سے گزرنا چاہا اور توازن بگڑ گیا۔ گھٹنے پر زبردست چوٹ آئی۔ سر پتھر سے ٹکرایا۔ ساِیئکل کا اگلا پہیہ مڑ کر اندر کی طرف آ گیا۔ چشمہ الگ ٹوٹا۔ سب سے بھاری نقصان یہی تھا۔

اور پھر مڈ لائف آ پہنچی اور اس کے واضح آثار بھی دکھائی دینے لگے۔ پہلے تو اسے نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اضافی کیلو کمر کے آس پاس اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہی چلے گئے۔ بڑا دھچکا اس وقت لگا جب میرے پسندیدہ سویئٹر نے تعاون کرنے سے انکار کردیا۔ ہمممممم۔ یہ ٹھیک نہیں ہو رہا۔ کچھ کرنا پڑے گا۔ اور میں نے ٹھان لی کہ مجھے جم جوائن کرنا ہے۔ اس قسم کی ”ٹھان“ میں پہلے بھی دو ایک بار کرچکی ہوں لیکن اس بار معاملہ کافی سنجیدہ تھا۔

اورپھر وہ تاریخی دن آ گیا جب میں ایک مشہور اور مصروف جم کے دروازے سے اندر داخل ہو ہی گئی۔ ایک بڑا سا ہال میرے سامنے تھا۔ اس میں لگی مشینیں کچھ تو جانی پہچانی تھیں، ٹی وی پر دیکھ رکھی تھیں، اور کچھ بالکل ناآشنا۔ ان مشینوں پر محنتی لوگ پورے خلوص سے لگے ہوئے تھے۔ کچھ نے نظریں اٹھا کر مجھے دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں مجھے اپنے لئے ہمدردی نظر آئی۔ کاؤنٹر پر بیٹھے ایک دیو ہیکل شخص نے، جس کے سیکس پیکس تنگ ٹی شرٹ میں صاف گنے جا سکتے تھے، مسکرا کر مجھے خوش آمدید کہا۔

میں نے دل میں سوچا چہرے کے اتنے کھینچے ہوئے پٹھوں سے مسکرانا خاصا تکلیف دہ ہوتا ہوگا۔ کچھ عجیب غیر فطری تن و توش تھا۔ دونوں بازو اس کے جسم سے ایک فٹ کے فاصلے پہ رکے ہوئے تھے مجھے ایک یہ خیال بھی آیا کہ اگر کبھی اس بچارے کو اپنی پیٹھ کھجانی پڑ جائے تو کس قدر تکلیف سے گزرتا ہوگا۔ وہ کاغذی کارروائی کرنے لگا۔ ممبرشپ کی فیس قوائد و ضوابط بتائے۔ میں ادھر ادھر نظریں ڈالتی رہی۔ لوگوں کے متناسب اور متوازن بدن دیکھ کر خود کو یاددہانی کراتی رہی کہ میرا بھی ایک بدن ہے جس کا مجھ پر پورا حق ہے اور جسے میں ایک مدت سے نظرانداز کر رکھا ہے۔

اس نے مجھے ایک نسوانی ٹرینرکے سپرد کر دیا۔

پھرتیلی سی لڑکی کا جسم واقعی کوکاکولا کی بوتل کی طرح تھا۔ میں نے رشک سے اس کی کھینچی ہوئی جلد دیکھی اور سوچا اسے چٹکی کاٹنا قطعی ناممکن ہے۔ اس نے مجھے ساتھ لیا اور مختلف مشینوں سے میرا تعارف کرایا اور ان کے استعمال کے طریقے بھی۔ میں سہمی سہمی سی یہ سب دیکھتی رہی۔

” یہ ڈمبلز ہیں۔ ذرا احتیاط سے کام لینا۔ زیادہ وزن مت اٹھانا۔ آہستہ آہستہ بڑھانا۔“ اس نے ڈمبلز اٹھا کر دکھائے۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ احتیاط کرنے میں ماہر ہوں۔ پھر ٹریڈ مل کی باری آئی۔ اس کی اسپیڈ اور کنٹرول سکھایا۔ کچھ اور مشینیں بھی تھیں لیکن میرا دھیان اس وقت کہیں اورتھا۔ یہ سوچ ستا رہی تھی کہ کہیں میں نے یہاں آ کر کوئی غلطی تو نہیں کی۔ کیوں کہ میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں اپنا آرام اور سکون بہت عزیز ہوتا ہے۔

تیز رفتاری اور جسمانی مشقت سے میرا تعلق کچھ خاص نہیں رہا۔ میرے اردگرد عجیب عجیب مشینیں تھیں جن پر لوگ بیٹھے ورزش کر رہے تھے۔ ہر عمر اور ہر سائیز کے لوگ تھے۔ کوئی بازو بھیلا رہاتھا تاکہ بائی سیپس بنا سکے۔ کوئی ٹانگوں کے مسلز ابھارنے کے لئے پوری طاقت سے ایک مشین کو دھکیل رہا تھا۔ میں حیران پریشان ان مشینوں میں گھری جیسے رضیہ غنڈوں میں گھری۔ ان سے بھڑ جاؤں یا جان بچا کر بھاگ جاؤں۔

میں نے فرار کی راہ کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے خود کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ڈمبلز دیکھے اور سوچا پانچ کیلو تو میں اٹھا ہی سکتی ہوں۔ آخر گروسری کے تھیلے بھی تو اٹھاتی ہوں وہ بھی اتنے ہی بھاری ہوتے ہیں۔ پانچ پانچ کیلو کے ڈمبلز ایک ایک ہاتھ میں اٹھائے، ہاتھ اوپر کیے اور میری کمر دہری ہو گئی۔ ڈمبلز کا گروسری کے تھیلوں سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ یہ کوئی جناتی چیز ہے اور مجھ جیسی خاکی کے لئے نا مناسب ہے۔ میری خوداعتمادی لڑکھڑانے لگی۔ کچھ اور کیا جائے۔

میر اگلا نشانہ تریڈ مل تھا۔ کچھ جھجھکتے ہوئے اس کی طرف بڑھی۔ ایک خالی تھی۔ میں اسے یوں دیکھنے لگی جیسے میری اور اس کی برسوں کی دوستی ہے۔ حالانکہ یہ آشنائی صرف ٹی وی پر دیکھنے کی حد تک تھی۔ گردن کے گرد تولیہ اور ہاتھ میں پانی کی بوتل لئے میں خود کو کافی پروفیشنل محسوس کر نے لگی۔ بالکل برابر والی تھریڈ مل پر ایک متناسب بدن کی چاق و چوبند لڑکی دوڑ لگا رہی تھی۔ میں ذرا نزدیک پہنچی تو دیکھا لڑکی اچھی خاصی عمر کی خاتون ہے۔

دل کو تسلی ہوئی۔ سوچاکہ اگر یہ کر سکتی ہے تو میں کیوں نہیں۔ یہاں میں ایک بار پھر میں خوش فہمی کا شکار رہی۔ اپنی صلاحیتوں کو جانچنے میں غلطی کی۔ ایک منٹ بعد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ تو سراسر تھرڈ ڈگری ٹارچر ہے۔ میری سانس پھول گئی۔ ماتھے سے پسینہ بہہ کر آنکھوں میں بھر گیا۔ بدن کا ہر مسام چیخ اٹھا۔ ۔ ۔ سامنے لگے آئینے میں اپنی شبہیہ زہر لگ رہی تھی۔ میں نے پر امید نظروں سے تریڈ مل پر لگے ڈسپلے پر نظر ڈالی۔

پتہ تو چلے میں نے کتنی کیلوریز جلائی ہیں۔ دیکھ کر اتنی مایوسی ہوئی کہ آپ سے شیئر کرنے کو بھی دل نہیں چاہ رہا۔ سوچا مشین کی اسپیڈ کچھ بڑھا دینی چاہیے۔ اور یہی میری اس دن کی سب سے بڑی حماقت تھی۔ میرے پیروں تلے مشین کی زمین برق رفتاری سے دوڑنے لگی اور میں اس کا ساتھ دینے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی۔ بھلا ہو اس دیو ہیکل کا جس نے مجھے گرنے سے بچا لیا اور مشین بند کی۔

اب میں نے ایروبیکس کی طرف توجہ کی۔ کچھ دیر میوزک پر رقص نما ورزش کی اور تھکن سے چور ہو گئی۔ دل بھی نہیں لگ رہا تھا۔ اگر ڈانس ہی کرنا ہے تو گھر کیا بری جگہ ہے؟ ایک اور ہال میں کچھ لوگ یوگا کے دھیان گیان میں مصروف دیکھے۔ میں بھی بیٹھ گئی۔ یوگا گرو کسی لمحے کی بات دہراتی رہی۔ اس لمحے میں رہیں۔ اسے محسوس کریں وغیرہ۔ اور میں سوچتی رہی کہ یوں آلتی پالتی بیٹھ کر گم سم تو میں اپنے کمرے میں بھی بیٹھ سکتی ہوں۔

آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ باقی کل۔ میں نے خود کو تسلی دی۔ تھکے تھکے قدموں سے میں جم سے باہر نکلی۔ قریب کی ایک دکان سے چپس کا پیکٹ اور ایک چوکلیٹ خریدی، شوگر لیول ڈاون جو ہو رہی تھی۔ گھر آ کر فریج سے ٹھنڈا کوک نکالا اور اپنے وفادار صوفے پر دراز ہو کر آج کے دن کا غم غلط کیا۔

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ اس دن کے بعد سے میں نے جم جانے سے توبہ کر لی ہوگی۔ جی نہیں۔ جب میں ممبر شپ کی فیس بھر رہی تھی تو مجھے پتہ تھا کہ میں کتنے پانی میں ہوں۔ جلد ہی ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ جاؤں گی اس لئے میں نے پورے سال کی ممبرشپ فیس ادا کردی تھی۔ اب سال تو گزارنا ہی تھا۔

اپنی دوست آنے کو راضی کیا کہ ساتھ چلتے ہیں ایک دوسرے کو موٹیویٹ کریں گے۔ اس نے دوستی کی لاج رکھی۔ ہم ساتھ جانے لگے۔ ورزش کے بعد کسی کیفے میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے، کافی پیتے، کیک کھاتے۔ اور یہی تفریح ہماری موٹیویشن رہی۔ اس کافی بریک کے شوق میں ورزش سہہ لیتے۔

میرے دکھ (ورزش) سکھ (کافی) کی ساتھی، آنے۔

سال گزر گیا۔ میرا پسندیدہ سویئٹر اب بھی پورے تعاون پر آمادہ نہیں تھا لیکن میں نے اسی طرح کا ایک اور خرید لیا۔ بس ایک سائز بڑا۔ سال بھر میں اتنا ضرور ہوا کہ میں کچھ پھرتیلی ہو گئی۔ اب زیادہ وقت تک صوفے پر بیٹھے رہنا کچھ ناگوار گزرنے لگا۔ ضمیر کچوکے لگاتا اور میں اٹھ کھڑی ہوتی۔ اور انتہائی حیرت انگیز طور پر اپنا خیال رکھنے کو جی چاہنے لگا۔ ورزش کرنا اورجم جانا ایک اہم کام ہو گیا۔ کچھ دن نہ جاؤں تو بے چینی ہونے لگتی ہے۔

ورزش صرف وزن کم کرنے کے لئے ہی نہیں کی جاتی، یہ بدن کی زکوٰۃ ہے، اسے ادا کرتے رہنا چاہیے۔ لیکن یہ زکوٰۃ سال میں ایک بار نہیں، ہفتے میں کم سے کم ایک بار تو دیجیے۔ آپ ہی کے فائدہ کی بات ہے۔ تو صوفے سے اٹھیے نا۔ اپنے بدن کی پکار سنیے۔ ذرا سی ہمت کیجیے۔

” یاد رکھیئے ورزش اس وقت تک بے کار ہے جب تک کی نہ جائے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).