پولیس اصلاحات: کیا کچھ ممکن ہوسکے گا؟


پنجاب میں پولیس اصلاحات ایک بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ جب پولیس کو ادارہ جاتی عمل یا قانون کی حکمرانی کی بجائے حکمران طبقہ اپنے سیاسی مقاصد یا مفادات کے لیے استعمال کرے گا تو اس عمل میں سے شفافیت اور جوابدہی کا نظام ممکن نہیں ہوگا۔ یہ امر فطری ہے کہ جب حکمران طبقہ پولیس کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرے گا تو اس کا ایک نتیجہ پولیس کے نظام میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جہاں پولیس بھی اس نظام کو اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہے۔

حالیہ دنوں میں پولیس کی تحویل میں پرتشدد واقعات اور تشدد کے نتیجہ میں مختلف ہلاکتوں نے ایک بار ہم کو دوبارہ پولیس نظام کے تناظر میں جنجھوڑا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ مسئلہ کسی ایک حکمران طبقہ کا نہیں بلکہ حکمرانی کا مجموعی نظام ہی ہمیں ادارہ جاتی اصلاحات بالخصوص پولیس اصلاحات کی عدم ترجیح کا شکار نظر آتا ہے۔

ایک مسئلہ ردعمل کی سیاست کا ہے۔ ہم مجموعی طور پر پولیس نظام میں تواتر کے ساتھ اصلاحات کرنے کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر پولیس تشدد پر مبنی واقعات پراپنا ردعمل دے کر معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے ہی معاملات کی شدت میں کمی ہوتی ہے تو ہم واپس اپنی پرانی ڈگر پر چلے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جب حزب اختلاف میں تھے تو ان کی توجہ کا ایک بنیادی نکتہ پولیس ریفارمز تھا۔ وہ شہباز شریف پر پولیس کے سیاسی استعمال یا پولیس کے بے لگامی پر سخت تنقید کرتے تھے۔ وہ خیبر پختونخواہ میں پولیس اصلاحات کو بنیاد بنا کر یہ دعوی کرتے تھے کہ پنجاب میں بھی اقتدار کی صورت میں ان کی پہلی ترجیح پولیس اصلاحات ہوں گی۔

پنجاب میں پولیس اصلاحات کے لیے وزیر اعظم عمران خان کا پہلا انتخاب سابق آئی جی ناصر درانی تھے۔ ان کو پنجاب میں پولیس ریفارمز کی بنیاد پر اہم ذمہ داری دی گئی۔ آئی جی پنجاب کے لیے نیک نام محمد طاہر کا انتخاب کیا گیا۔ خیال تھا کہ ناصر درانی اور آئی جی پنجاب مل کر وہ کچھ کرسکیں گے جو پولیس اصلاحات میں درکار ہیں۔ لیکن جلد ہی یہ کھیل ختم ہوا اور پنجاب میں طاقت ور سیاسی اورانتظامی عناصر نے وزیر اعظم کو سیاسی سمجھوتوں پر مجبور کیا اوراس کا نتیجہ ناصر درانی کے استعفی اور آئی جی پنجاب کی تبدیلی کی صورت میں نکلا اور محسوس ہوا کہ فوری طور پرپولیس میں بڑی اصلاحات کا معاملہ پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

پولیس اصلاحات میں پولیس کے نظام کو چند بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول پولیس میں سیاسی مداخلتوں کا عمل ہے جس نے پولیس نظام کو کھوکھلا کردیا ہے۔ ایم این اے، ایم پی اے، وفاقی و صوبائی وزرا، مشیروں سمیت اقتدار سے جڑے تمام افراد پولیس کو اپنے ذاتی اورسیاسی مفاد میں استعمال کرتے ہیں اوراپنی مرضی کے افسران کی تقرریاں یا تبادلے کرتے ہیں۔ دوئم پولیس اورمافیازیا جرائم پیشہ افراد کے درمیا ن کچھ ایسے گٹھ جوڑ بھی موجود ہیں جو پولیس کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔

سوئم پولیس کی نگرانی میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات، پولیس نگرانی میں انسانی ہلاکتوں اور عوام کے ساتھ ان کے سلوک نے پولیس کی مجموعی سیاسی، سماجی اور اخلاقی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ پولیس کے نجی ٹارچر سیل موجود ہیں جو پولیس نظام پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ چہارم پولیس اور عوام میں بڑھتی ہوئی خلیج یا بداعتمادی نے بھی پولیس نظام کی شفافیت پر سوالات کھڑے کرکے پولیس کے سافٹ امیج کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پنجم پولیس کے اپنے داخلی تربیتی نظام پر بھی سوالات ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ پولیس کی تربیت اور برتاؤ کا عمل سمیت اس میں احتساب و جوابدہی، نگرانی اور شفافیت کا عمل بہت زیادہ کمزور نظر آتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ساری کی ساری پولیس برے لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس میں اوپر سے لے کر نیچے تک اچھے لوگ بھی موجود ہیں اوریہ ہی لوگ پولیس کی نیک نامی بھی سمجھے جاتے ہیں۔ پولیس نے امن وامان کی بحالی سمیت دہشت گردوں سے نمٹنے کے حوالے سے بھی جانی سطح پر بڑی قربانیاں بھی دی ہیں اوران کا اعتراف ہر سطح پر کیا جانا چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ پولیس نظام میں پورے نظام کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں ان سے کیسے نمٹا جائے اورکیسے اس تاثر کو مضبوط بنایا جائے کہ پولیس افراد یا طاقت ور مافیا کے مقابلے میں قانون کی حکمرانی کے تابع ہے۔

پولیس اصلاحات پر بہت زیادہ کام بھی ہوا ہے اورکئی اہم رپورٹس تجاویز کی صورت میں موجود ہیں۔ سابق چیف جسٹس نے پولیس اصلاحات کے لیے سفارشات بھی مانگی تھیں اور پولیس کے موجودہ اور سابق افسران کی تجاویز پر مبنی 8 نکاتی سفارشات سپریم کورٹ میں جمع کروادی گئی تھیں جن میں ماڈرن قوانین، پولیس کے اندر احتسابی عمل، تفتیشی نظام کی بہتری، شہری اوردیہی علاقوں میں طریقہ کار میں فرق سمیت کئی اہم نکات تھے۔ مگر حکومتی عدم ترجیحات کے باعث ان تجاویز پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

پنجاب کے موجودہ پولیس سربراہ کیپٹن ( ر ) عارف نواز خان کافی تجربہ کار پولیس افسر ہیں۔ اس سے قبل بھی وہ پنجاب پولیس کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ ایک مکمل پروفیشنل اور نیک نام پولیس افسر کی شہرت رکھتے ہیں اورپنجاب کے مجموعی پولیس نظا م کے داخلی اور خارجی مسائل کا اہم ادراک سمیت بہت کچھ کرنے کی خواہش اور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان کے بقول پولیس کے بہت سے اقدامات جو منفی نوعیت کے ہوتے ہیں اس سے پولیس میں ہونے والے اچھے کام بھی پیچھے چلے جاتے ہیں۔ وہ پولیس کو بطور ادارہ ایک ایسی جگہ پر لے جانے کے خواہش مند ہیں جہاں جدیدیت کی بنیاد پر پولیس اصلاحات بھی ہوں پولیس کا عمومی تصور عوام دوست بھی ہو۔ پولیس کے تفتیشی نظام میں اصلاحات بھی ان کی ترجیحات کا اہم حصہ ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آئی جی پنجاب کس حد تک سیاسی مداخلتوں سے آزاد ہیں اور جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں ان کو مکمل خود مختاری حاصل ہے۔ کیونکہ پولیس نظام پر تنقید بہت آسان ہوتی ہے جبکہ پولیس کا جو داخلی نظام ہے اس میں جب تک انتظامی سطح پر اداروں او رافسروں کو خود مختاری نہیں دی جائے گی، کچھ ممکن نہیں۔ لیکن پنجاب پولیس کے سربراہ کیپٹن ( ر ) عارف نواز کو موجودہ حالات میں یہ سمجھنا ہوگا کہ پولیس کا موجودہ نظام اور طرز عمل کے جو واقعات سامنے آرہے ہیں اس کو ایک بڑے چیلنج کے طورپر لینا ہوگا۔

پولیس کا نظام محض انتظامی اقدامات یا روایتی طریقوں سے کچھ نہیں ہوسکے گا۔ کینسر جیسے مرض کا علاج ڈسپرین کی گولی سے ممکن نہیں۔ پولیس کے حالیہ نظام کی درستگی غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات سے ہی ممکن ہوگی۔ ایک بڑی سرجری پولیس نظام کو درکار ہے او ریہ سرجری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پنجاب کے پولیس سربراہ عارف نواز کے پیچھے خود حکومت نہیں کھڑی ہوگی اوران کو مکمل خود مختاری نہیں دی جائے گی۔

پولیس میں ریفارمز کے لیے کمیونٹی پولیسنگ، پولیس کے تربیتی نظام میں انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اصلاحاتی تربیت کا نظام، تھانہ کلچر اور بالخصوص چھوٹے شہروں میں عوام دوست تھانوں کا کلچرجہاں سازگار ماحول ہو، پولیس کے نظام میں بگاڑ پیدا کرنے والے افراد کی سخت نگرانی اور جوابدہی کا نظام، شہری اورپولیس رابطہ کمیٹیوں کا قیا م، نجی ٹارچر سیل کا خاتمہ، بے جا پولیس تشدد کی حوصلہ شکنی، پولیس میں اچھا کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی، مجرموں سے نمٹنے کے لیے نفسیاتی ماہرین کی خدمات، شہری اورپولیس تعاون کے امکانات، میڈیا میں اچھے کاموں کی تشہیر، نئی نسل میں قانون کی حکمرانی کی سوچ کے شعور کو اجاگر کرنا، مجرموں کو پیشہ ور مجرم بنانے کی بجائے ان کی اصلاح کی کوشش، پولیس اورجرائم پیشہ افراد کا گٹھ جوڑ کا خاتمہ جیسے اقدامات کو بنیاد بنا کر اصلاح کرنا ہوگی۔

وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو سمجھنا ہوگا کہ محض زبانی باتوں اورخالی خولی نعروں سے پولیس کا نظا م درست نہیں ہوگا۔ اگر حکومت واقعی پولیس نظام کی اصلاح چاہتی ہے تو اسے پھر کڑوی گولی ہضم کرنا ہوگی اورتمام تر سیاسی عمل یا مداخلتوں سے پاک پولیس کا نظام اس کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ جب حکومت خود پولیس کے نظام میں سیاسی مداخلت نہیں کرے گی تو پولیس کی اپنی مداخلتوں کو بھی روکا جاسکے گا۔ پولیس نظام کی اصلاحات کا عمل کسی بھی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا۔ وزیر اعظم اوروزیر اعلی کو خود پولیس کے سربراہ کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا اور ثابت کرنا ہوگا کہ وہ سابقہ حکمرانوں سے مختلف ہیں اور واقعی پولیس کی درستگی چاہتے ہیں او ریہ ان کی اہم ترجیح ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).