پاکستان کے نئے نویلے ملحد ”روشن فکر“ دانشوروں کی خدمت میں چند گزارشات


یہ بات شک سے بالاتر ہے کہ سائبر اسپیس نے نئے لکھنے والوں کو اپنا نکتہء نظر قارئین تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایڈیٹر و مدیران کے عمل دخل کے بغیر سوشل میڈیا پر شائع ہونی والی تحریروں کا اک منفی پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ اس منفی جہت کی وجوہات میں سے اک اہم وجہ قاری کا غیر تربیت یافتہ ہونا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا نصاب اک طالب علم کو علمی اور غیر علمی مواد میں امتیاز کرنا نہیں سکھا پاتا ہے جس کے نتیجے میں اکثر افراد انٹرنیٹ یا فیس بکُ پر شائع ہوئے کسی بھی مضمون کو بغیر کسی تنقیدی نظر کے قبول کرلیتے ہیں۔

پاکستان میں کچھ برسوں سے ایک نیم دانشورانہ مطلق العنان طبقہ ابھر کر آیا ہے جن میں سے بعض افراد اپنے طرز فکر کو الحاد کا راستہ بھی قرار دیتے ہیں۔ گو کہ علمی دنیا میں ملحد ہونا کوئی قابل بحث بات نہیں لیکن اس مضمون میں اس طبقے کے رویوں پر کچھ عرض کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مذکورہ دانشوران میں سے بہت سے افراد کا خیال ہے کہ مذہبی اعتقادات رکھنے والے سائنسی ایجادات کرنے کے اہل نہیں ہوتے اور کوئی نیا نظریہ یا تھیوری پیش کرنے کی ان میں قابلیت نہیں ہوتی۔

ہمارے ان نیم دانشور دوستوں کے مطابق جو بھی عظیم ایجادات ہوئی ہیں وہ منکرین خدا یا منکرین مذہب نے ہی کی ہیں۔ یہ حضرات مذاہب سے منسلک ثقافتی رسومات کی بھد اڑانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ خاص طور سے محرم کا مہینہ آتے ہی ان کے مذاق اڑانے کے رویے میں شدت آجاتی ہے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی شخص محرم کی رسومات میں شریک ہے تو اسے عقل و ادراک سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ سبط حسن مرحوُم اور علی عباس جلالپوری کی علمی تحریروں کو صرف اس بنا پر رد کردیا جاتا ہے کہ وہ محرم میں رسوم عزا ادا کرتے تھے۔

کیوں نا ہم کچھ ایسے سائنسدانوں کے کارناموں کا جائزہ لیں جن کا پس منظر مذہبی تھا۔ چونکہ راقم الحروف نے حیاتیات اور جینیٹکس کی تعلیم حاصل کی ہے تو ابتدا حیاتیات کے وراثتی قوانین کو وضع کرنے والے پادری ”جارج مینڈل“ سے کرتے ہیں جنہوں نے 1856 میں اپنے مدرسے کے باغ میں مٹرکے  مختلف النسل کے پودوں کی کراس پولی نیشن کرکے وراثت کے قوانین وضع کیے تھے جو آج بھی مینڈل کے قوانین کے نام سے پڑھائے جاتے ہیں۔ حیاتیات کی ہی دنیا کا اک بڑا نام نظریہ ارتقاء کے بانی ”چارلس ڈارون“ کا ہے۔

ان کا تعلق بھی اک مذہبی گھرانے سے تھا اور وہ ابراہیمی خدا کے قائل تھے۔ جب انہوں نے فاسلز کے مشاہدے کے بعد نظریہ ارتقاء کو وضع کیا تو ان کے بعض عیسائی اعتقادات میں تبدیلی تو آئی لیکن انہوں نے کبھی بھی اعلان دہریت نہیں کیا تھا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ ڈارون سے کوئی ایک ہزار سال قبل آٹھویں ہجری میں ایک عالم دین ”ابو عثمان امیر ابن بحر المعروف ابن جاہز“ اپنی مشہور تصنیف ”کتاب الحیوان“ میں نظریہ ارتقا کو پیش کرچکے تھے۔

آپ کا تعلق مسلمانوں کے فکری سلسلے معتزلہ سے تھا اور آپ کے ماننے والے الجاہزی کہلاتے تھے۔ مادام کیوری کا نام کیمیا دانوں کی فہرست میں صف اوّل میں آتا ہے، مادام اک مذہبی خاتون سائنسدان تھیں۔ یورپ تک یونانی فلسفہ پہنچانے کا سہرا ابن رشد کے سر ہے، آپ بھی خدا کے انکاری نہیں تھے اور مسجد میں عبادت کے لئے بھی جاتے تھے۔ طبیعات کے مشہور عالم آئزک نیوٹن نے بھی خدا کے وجود سے کبھی انکار نہیں کیا تھا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے بہت سے دانشور ایسے گزرے ہیں کہ انہوں نے آسمانی کتابوں کا انکار کیا۔

مثال کے طور پر بدھا، جو کہ وجود خدا کے سوال پر تو خاموش رہے لیکن انہوں نے ویدوں کا انکار کردیا تھا۔ جین مذہب کے بانی مہاویر بھی ویدوں کے انکاری تھے لیکن انہوں نے سماج میں مروج رسومات کا مذاق نہیں اڑایاتھا۔ آج کے دور میں خاص طور سے یورپ میں بہت سے اسکالرز مذہب کے قائل نہیں لیکن یہاں آپ کو کسی بھی سطح پر چاہے سوشل میڈیا ہی کیوں نہ ہو مذہبی رسومات کا مذاق اڑانے والے نہیں ملیں گے۔ یورپ میں آج بھی مذہبی تہوار کرسمس اور سانتا کلاز اور حضرت عیسی کا یوم شہادت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔

ملحد والدین بھی اپنے بچوں کو ان تہواروں کو منانے کے لئے وسائل ذوق و شوق سے فراہم کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے نئے ملحدین یا نیم ملحدین ہر تہوار کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں چاہے وہ تہوار محرم کا ہو یا گیارہویں شریف کی نیاز ہو یا رجب کے کونڈیں ہوں، عرس ہوں، دھمال ہوں، قوالیاں ہوں یا مجرے ہوں۔ ہمارے ملحد دانشوروں کا اصرار ہے کہ ملحد ہی ایک سائنسدان ہوسکتا ہے۔ ہمارے فزکس کے مشہور استاد پرویز ہودبھائی نے کبھی بھی اپنے اسماعیلی شیعہ ہونے سے انکار نہیں کیا۔

مشہور زمانہ ماہر طبیعات ڈاکٹر عبدالسلام مرتے دم تک احمدی عقیدے پر قائم رہے۔ مذکورہ اساتذہ کے علمی مضامین تو بے شمار علمی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر دانشوری کا رعب ڈالنے والوں کا شاید ہی کوئی مضمون کسی علمی جریدے میں شائع ہوا ہو۔ ان مطلق العنان دانشوروں کی رائے زنی اپنی جگہ لیکن پاکستان میں محرم کی رسومات بھی جاری رہیں گی، گیارہویں شریف کی نیازیں بھی ہوں گی، درباروں پر ہیر بھی پڑھی جائے گی اور دھمال بھی ہوں گے، عرس بھی منائیں جائیں گے، قوالیاں بھی ہوں گی اور ان کو سن کر جذب و مستی میں لوگ جھومیں گے بھی، مجرے بھی ہوں گے کہ یہ سب ہماری ثقافت ہے۔ جو قومیں اپنی ثقافتی رسومات کو زندہ رکھتی ہیں وہی قومیں زندہ بھی رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).