کشمیر کا لاک ڈاؤن


چالیس سے زیادہ روزوشب گزرگئے ہیں کہ بھارت کی قابض اورظالم فوج نے جنت نظیروادی کشمیرکوقفل ڈال دی ہے۔ نہ کوئی اندر سے باہرآسکتا ہے اور نہ ہی باہرسے کسی کواندرجانے کی اجازت ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر جس کے بارے میں پوری عالم میں کہاوت یہی مشہور ہے کہ یہ ٹکڑا زمین پرجنت ہے۔ اسی جنت کوبند کرکے وہاں کے باسیوں کے لئے جہنم سے بھی بدتربنادیا گیا ہے۔ تمام بنیادی انسانی حقوق مکمل طورپرمعطل ہیں۔ انسانی حقوق میں سب سے اہم حق اپنے خطے میں آزادانہ نقل وحرکت ہے۔

بھارت کی قابض فوج نے وادی میں کشمیریوں کی گھروں سے باہرنکلنے پرپابندی لگا دی ہے۔ تمام بازار مکمل طورپربند ہیں۔ بازاروں کی بندش کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ وہاں قحط ہے۔ لیکن قحط خود بھی ماتم کناں ہیں۔ اس وقت مقبوضہ جموں وکشمیر کا خطہ کربلا کا منظرپیش کررہا ہے۔ اگرمیں لکھ دوں کہ حالات کربلا سے بھی زیادہ درد ناک اور اذیت ناک ہیں تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ وہاں پانی کی شدید قلت ہے۔

لوگ پانی کی بوند بوند کے لئے ترس رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کی فوج نے جبر کی اس حد تک انتہاکردی ہے کہ تمام ہسپتال بند کردیے گئے ہیں۔ مریضوں کو شفاخانوں میں لے جانے کی اجازت نہیں۔ بہت سے مریض کہ جس میں پھول جیسے نازک اور معصوم بچے بھی شامل ہیں ڈاکٹراوردوائی نہ ملنے کی وجہ سے گھروں میں ماؤں کی گود میں تڑپتے ہوئے جان، جان آفرین کے سپرد کرچکے ہیں۔ تعلیمی ادارے مقفل ہے۔ طالب علموں کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے۔

تمام کاروباری مراکز بند ہیں۔ سرکاری دفاتر کو تا لے لگا دیے گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پرمکمل پابندی ہے۔ ہرانسان کا حق ہے کہ وہ اخبار کا مطالعہ کریں لیکن مقبوضہ وادی میں اخبارات، رسائل اور جرائد پر پابند ی ہے۔ ہرکسی کا حق ہے کہ ٹیلی ویژن دیکھ سکیں لیکن بھارت نے اس پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ لوگوں کا حق ہے کہ ریڈیو سن سکے۔ بھارت کی بزدل ریاست نے ریڈیو سننے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ انٹرنیٹ سروس کوبند کردیا گیا۔

موبائل اور ٹیلی فون سروس پر بھی کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے سوشل میڈیا بھی بند ہے، جبکہ مو بائل اور ٹیلی فون کی بندش کی وجہ سے رابطے مکمل طورپرمنقطع ہوگئے ہیں۔ تمام چھوٹے بڑے راستوں اور سڑکوں کو خاردار تاریں لگا کربند کردیا گیا ہے۔ جوبھی گھر سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اسے گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جہاں ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ اب تو جیل بھی کم پڑگئے ہیں۔

گزشتہ چالیس دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کرکے جیل کی کال کوٹھریوں میں جانوروں سے بھی بدتر حالات میں بند کردیئے گئے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان لاپتہ ہے۔ انہی چالیس ایام میں درجنوں خواتین ہاف ویڈو بن چکی ہیں۔ ضعیف والدین سے ان کے مستقبل کے سہاروں کو چھین لیا گیا ہے۔ جوافراد کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گھروں سے باہرنکلتے ہیں اور بھارت کی جابر فوج ان کو پکڑنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو قابض فوج ان کے گھروں میں گھس جاتی ہے۔

وہاں خواتین کے ساتھ نارواسلوک کرتے ہیں۔ ابھی تک کئی اطلاعات یہ بھی مو صول ہوئی ہیں کہ بھارت کی ظالم فوج مقبوضہ جموں و کشمیر میں اجتماعی ابروریزی بھی کررہی ہے۔ انہی چالیس روزہ لاک ڈاؤن میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ پیلٹ گن کا نشانہ بن چکے ہیں۔ جس میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔ ایک کثیر تعداد بینائی سے محروم ہوچکی ہے۔ ہزاروں کی تعدادمیں لوگ زخمی ہیں، جن کوعلاج کی اشد ضرورت ہے لیکن بھارت کی ظالم اور جابر فوج ان کوعلاج جیسا بنیادی حق دینے سے بھی انکاری ہے۔ انسان تو کیا وہاں جانوروں کی خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی معیشت کا زیادہ تر انحصار مال، مویشیوں پرہے لیکن چارہ نہ ہونے کی وجہ سے جانورمر رہے ہیں۔

5 اگست کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر کے باسیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ ساتھ والے گھرمیں ظلم اور جبر نے کون سی قیامت ڈھائی ہے۔ جولوگ وادی سے باہرہیں ان کومعلوم ہی نہیں کہ ان کے گھر والے کس اذیت سے گزر رہے ہیں اورنہ ہی وادی میں مقید لوگوں کوعلم ہے کہ وادی سے باہران کے پیارے ان کے لئے کس طرح ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ چالیس روز سے زیادہ کاعرصہ گزرنے کے باوجود اقوام عالم نے ابھی تک بھارت سے زبانی جمع خرچ کے علاوہ عملی طور پر کشمیریوں کی حمایت کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے اور پچاس سے زائد ملکوں نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وادی سے کرفیو کو فی الفور ہٹا دیں۔ وہاں بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔ لیکن طاقت کے نشے میں بدمست بھارت کی حکمران اور مقبوضہ وادی میں موجود ظالم قابض فوج پرابھی تک کوئی اثر ہوا نہیں۔ پاکستان جو کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی عوام کے اس مطالبے کا حامی ہے کہ ان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کی اجازت دی جائے، وادی کی موجودہ تشویش ناک صورت حال پر تشویش ہے اور حالات کو معمول پرلانے کے لئے سفارتی اور سیاسی طور پرپوری طرح متحرک بھی ہے۔

اس لئے کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ لیکن پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی برادری اور بین الاقوامی تنظیموں خاص کراقوام متحدہ کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قراردادوں پرعمل درآمد کے لئے بھارت سے عملی اقدامات اٹھانے کے لئے ان پر دباؤ ڈالیں اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی عوام کو بھارت کے ظلم وجبر سے آزاد کرکے ان کو اپنی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا حق دیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی عوام اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے کہ اس وقت صرف پاکستان ان کا مقدمہ لڑرہا ہے۔

اس لئے جب کشمیری نام نہاد کرفیو کے حصار کوتوڑ کرباہر نکلتے ہیں تو ان کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ ”ہے حق ہمارا آزادی“۔ پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی محبت اورعقیدت کاعالم یہ ہے کہ وہ اپنے شہیدوں کو پاکستانی پرچم کا کفن پہنا کر دفن کرتے ہیں، اس لئے وہ دن دور نہیں کہ جب کشمیرمیں آزادی کا سورج طلوع ہواورمقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کا یہ نعرہ حقیقت کا روپ دھار لے کہ ”کشمیر بنے گا پاکستان“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).