بیداری کی لہر


لگتا تو یوں تھا کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان قائم دوستی کا پُل اس خون کے دریا کو پار کرنے میں مدد دے گا جو بٹوارے کے وقت بن گیا تھا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا بلکہ کشمیر کے مدعے کو لے کر دونوں ملکوں کے بیچ تین جنگیں بھی ہوئیں کشمیر کے باسیوں کو کبھی بھی حقِ رائے دہی کا اختیار دیا ہی نہ گیا اور شاید بھارت میں گزرتی ہوئی سب حکومتوں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ کشمیریوں کو استصواب رائے دینا پسند ہی نہیں کریں گے۔

اس وقت انڈیا میں نریندر مودی اپنی حکومت کے سو دن پورے ہونے کا جشن منا رہی ہے مگر اس سلسلے میں کانگریس کا کہنا ہے کہ مودی کی حکومت کو تین الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ tyranny، chaos and ararchyیوں تو سرکاری پارٹیاں ہمیشہ اپنی کامیابیوں کے ڈھول پیٹتی ہیں جبکہ 80 لاکھ لوگ بِنا کسی بھی فون اور انٹرنیٹ کنکشن کے 43 روز سے اپنی زندگی بدترین قیدیوں کی طرح جموں و کشمیر میں گزار رہے ہیں۔ دوسری طرف آسام میں NRC لاگو کر دی ہے اور وہاں تقریباً 20 لاکھ لوگ پوری طرح سے stateless ہو چکے ہیں۔

مودی گجرات کے قتلِ عام سے بچ نکلا اور واجپائی کے برعکس وہ اپنے شدت پسند رویے سے بھارت کو صرف اور صرف اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے دونوں ملک ایک دوسرے کے بے حد قریب ہیں لیکن اسی قربت کے رشتے میں کشمیر کا معاملہ ایک ایسے درجۂ حرارت کی طرح تھا جس پر تیل گرم ہونے کے بعد اُٹھنے والی لپیٹ سے ہواؤں میں بھڑک اُٹھ کھڑی ہو۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی استحصالی و پامالی ضرور ہوئی ہے اور اب تک ہو رہی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پچھلے 72 سالوں سے وہاں حقوق کا استحصال ہو رہا ہے۔

کشمیر کا جھگڑا کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کا جھگڑا ہے کشمیر میں سب سے پہلے تو کرفیو کو اٹھایا جانا امن و امان کی طرف پہلا قدم ہے اس کے بعد حریت رہنماؤں کی رہائی از حد ضروری ہے، کشمیر سے کرفیو ہٹانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندگی کے لیے پانی، جتنا سانس لینے کے لیے آکسیجن، جتنا فصلوں کے پکنے کے لیے سورج کی تپش، جتنا چاند کے لیے رات کا ہونا۔ جہاں تک اس نعرے کا سوال ہے ”کشمیر بنے گا پاکستان“ تو صاحب! وہاں شاید پاکستان بن چکا ہو گا ذرا کرفیو ہٹنے دیجیے پھر دیکھے وہاں کے باسی کیا کہتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے بھی یہ ہی کہا ہے کہ جو کشمیری چاہیں گے ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ کشمیر وہ واحد خطہ ہے جہاں اسلام صوفیا کرام کی وجہ سے پھیلا اور جتنی مذہبی رواداری کشمیر میں دیکھی جا سکتی ہے وہ اور کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ کشمیریوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور پاکستانیوں کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ دنیا بھر سے لوگ بھارتی انتہا پسندی کے رویے پہ مسلسل احتجاج کیے جارہے ہیں لیکن ابھی تک مودی ٹس سے مس نہیں ہوا۔

اب تو بین الاقوامی شہرت یافتہ سکالر اور کرم چند موہن داس گاندھی کے پوتے پروفیسر راج موہن گاندھی نے بھی کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے کو مسترد کرتے ہوئے عالمی قوتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہاں فوری استصواب رائے کرنے کے لیے عالمی قوتیں مودی حکومت پر دباؤ بڑھائیں۔ امریکہ میں یونیورسٹی آف ایلی نوایس اربانہ شیمپن میں کشمیر سے متعلق ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر میں مسلسل کرفیو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

مودی حکومت کو گاندھی جی کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے بھارت واسیوں سے ایک جیسا سلوک روا رکھنا چاہیے یہ خود بھی بھارت کے حق میں بہتر ہو گا۔ کشمیر میں اس وقت جو ہو رہا ہے گاندھی کے ملک میں ایسا نا ممکن ہے مودی حکومت کی کارروائیوں سے نفاق بڑھ کر ملک میں بگاڑ کی صورت ابھرے گا۔ تقریب میں یونیورسٹی کے پروفیسرز اور مختلف ملکوں سے آئے ہوئے طلبا کے علاوہ مقامی افراد نے بھی بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اُدھر جس طریقے سے ہماری موجودہ حکومت اور خارجہ پالیسی نے کشمیر کے معاملے کو دنیا بھر میں ابھارا ہے وہ ایک حوصلہ افزا اقدام ہے۔

اب تو مسئلہ کشمیر امریکی صدارتی انتخابی مہم میں بھی شامل ہے امریکی ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار بننے کی خواہش مند کمیلا ہیرس اور سابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے بھی کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر کہاکہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ تنہا نہیں ہم ان کے ساتھ ہیں غاصب سمجھتا ہے کہ کوئی اس کے اقدامات کو نہیں دیکھتا جبکہ دنیا اس کو دیکھ رہی ہے جوبائیڈن نے کہا کہ کشمیر کے حالات کو بدلنا ہوگا۔ دنیا کی ہر ریاست کسی نہ کسی نظریے پہ قائم ہے یہ نظریہ یا تو سیاسی یا معاشی یا کہیں مذہب سے جڑا ہوتا ہے۔

کیونکہ اس نظریے کے وجود پر ریاست کے باشندوں کو اپنی اطاعت سکھائی جاتی ہے اور یوں وہ باشندے جو عوام کہلاتے ہیں انہیں ریاست اپنے اغراض و مقاصد کے سانچوں میں ڈھالتی ہے۔ غریب اور بے بس عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ریاست اور عوام کا مفاد مشترکہ ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ ریاست دراصل طبقاتی فرق پیدا کرنے کا ادارہ ہے جس کا اہم مقصد اربابِ اختیار کے مفادات کو پالنا ہوسنا ہوتا ہے۔ ہٹلر بھی نسلی عصبیت کا داعی تھا اور اپنی ریاست کو جارحانہ نسل پرستی کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتا تھا۔

ہٹلر کا کہنا تھا جرمن یورپ کے جس حصے میں آباد ہیں وہ جرمن ریاست کا اٹوٹ انگ ہے۔ ایسے ہی خیالات کا حامل فسطائی اصولوں کا پیرو نریندر مودی ہے جو اکھنڈ بھارت کو ہندوستان گردانتا ہے۔ مودی دور میں ہندوستانیوں کو ان کے اپنے ملک کے سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، اور طبقاتی مسائل پر اظہارِ رائے کی آزادی نہیں دی جارہی، کوئی اخبار، رسالہ یا ٹی۔ وی چینل مودی اقدامات پہ اعتراض نہیں اٹھا سکتا اور اگر ایسا کرے گا تو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ کشمیر میں جبراً قیدی اپنے بازو پَر ہلا رہے ہیں کہ کسی طرح آزادی حاصل کر سکیں۔ کشمیر میں اس وقت خشک اور تَر پھل سب گل سڑ رہے ہیں یہ لائن لکھتے لکھتے اپنی ایک نظم اپنے قارئین کی نذر کرتی ہوں۔

سُن اے ظالم وحشی مودی!

کشمیر کے میٹھے سیبوں میں اب پہلی سی مٹھاس کہاں؟

اب تو اس میں جبر کی تلخی

قطرہ قطرہ ملتی ہے! ہر پتے سے رستی ہے

یہ پانی نہیں ہیں آنسو ہیں

اُس مالی کے جو ان سیبوں کو پالتا تھا

کشمیر کے ان سیبوں میں اب پہلی سی لالی کہاں؟

یہ لالی تو اس لہو کی ہے جو مزدور

کے بچوں کو بندوقوں کی گولی سے بینائی کھونے کے بعد ملی

سُن اے ظالم وحشی مودی!

گر تم کو یہ لگتا ہے کہ میرے نازک لفظوں میں

سیبوں کی لالی اور ہے مٹھاس!

تو سُن لے کھول کے کان اپنے۔

یہ قتل ہے سارے لوگوں کا

یہ خون ہے ناحق روحوں کا

جس خون سے تم ہوتے ہو مست

یہ خون جو تم پیے جاتے ہو، یہ روش جو تم جیے جاتے ہو

فریاد ہے دُکھی روحوں کی

ان چناروں کی ان سیبوں کی

جو خون سے لت پت لٹکے ہیں

ہر سیب ہے خون آلود یہاں

کشمیر کے میٹھے سیبوں کے خوشے جو تم توڑتے ہو

اس میں رس ہے ان کے اشکوں کا

سب ناحق سچی روحوں کا!

گر یہ منڈی میں سڑ جائیں گے

تو شام کے سُرخ اندھیرے میں یہ تارے بن کے چمکیں گے

اور آزادی کے راگ سینوں سے لبوں پہ آئیں گے

سُن لے اے ظالم وحشی مودی!

ظلم کی آہنی دیواروں میں شگاف پڑے ہی جاتے ہیں

بیداری کی لہر اٹھی ہے دل میں سب دیوانوں کے

ان لہروں سے پھر زور کے ریلے آئیں گے

اور کہنگی کے ملبوسوں کو سنگ بہا لے جائیں گے

اُدھڑی اُدھڑی روحیں سب پھر

فتح کا سورج دیکھیں گی!

نجات کا جشن منائیں گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).