البرٹ کاموز کا ناول ’اجنبی‘ اور فلسفہ وجودیت


مذہبی دیو مالائی کہانیوں سے ہٹ کر اگر کبھی سوچیں تو کا ئنات کی موجودگی کی کوئی عقلی دلیل نظر نہیں آتی ہے اور جب کائنات بے دلیل نظر آتی ہے تو اس

کی تخلیق کے بعد کے پنپنے والے تمام تر نظریات محض انسانی ارتقائی عمل کی بقا اور ممکنہ ضرورتوں کے ماتحت ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ مذہبی دیومالی قصے یوں بھی آج تک کوئی بھی عقلی دلیل نہیں دے پائے ہیں۔ یہ ایمان اور تقلید کی مدد سے جڑی ہوئی کہانیوں میں کہانیاں ہیں جس کے ڈانڈے ہزاروں برس پرانی انسانی نفسیات کے ذہنی ارتقا سے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اُن کی موجودگی کا سبب سراسر انسانی لاعلمی اور نفسیاتی کمزوری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

صدیوں کی انسانی تاریخ بھی گواہ ہے کہ عقلی دلیل کی بنیادیں ایمان اور تقلید پر نہیں بلکہ شبہ اور انکار پر ہے کہ وہی سے ممکنات اور ناممکنات کا درمیانی دروازہ کھلتا ہے اور انسانی فکری ارتقا کا سفر آگے بڑھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کائنات کی بے معنویت کا راز ’اگر‘ کہیں جاکر کسی شخص پر کھلتا بھی ہے تو بد قسمتی یا خوش قسمتی سے وقت اور جگہ میں اُس کی موجوگی کا وہ آخری لمحہ ہوتا ہے جسے ہم نے موت کا نام دیتے ہیں کہ ٹھیک اس وقت اُس کی موجودگی غیر موجودگی سے بدل جاتی ہے اور پھر خود عقلی دلیل بھی خودبخود کائنات ہی کی طرح بے دلیل اور بے معنوی ہوجاتی ہے۔

چودھویں صدی کے درمیانے عشرے میں چند معمولی سی اینٹی باؤٹکس جیسا کہ ٹیٹرا سائیکلین، جینٹا مائیسن یا سپرو فلوکساسین کے وجود میں نہ ہونے کی وجہ سے یورپ میں دو سو ملین انسان محض گلی کے چوہوں سے پھیلی ہوئی ببونک پلیگ کی بیماری سے اپنی جان سے چلے گئے اور یوں پورا یورپ قبرستان میں بدل گیا مگر پھر اس سانحے نے کیتھولک چرچ کی بنیادوں کو بھی اچھی طرح سے ہلا دیا کیونکہ لوگ پادریوں سے خدا سے مدد کی درخواست کرتے رہے اور پادریوں کی کوئی بھی دعا اُن کی زندگیوں کو نہ بچا سکی۔

یوں جب مذہبی سحر ٹوٹا تو اگلے چند سو برسوں کے یورپین سماجی، معاشی، سیاسی اور سائنسی فکری انقلابات نے کائنات کی ارتقا کے مذہبی دیومالائی تصور کو تاریخ کی کتابوں کی ڈس بن میں ردی کی طرح پھینک دیا اور کائنات کی بے معنویت کو فلسفیانہ فکر کی روشنی میں اور معنویت کو سائنسی فکر کے سائے میں جانچنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انسویں اور بیسویں صدی کے درمیانے عشرے میں کرک گارڈ، فرینز کافکا، البرٹ کاموز، پال سارترے، دوستو ویسکی اور گبریل مارسل جیسے فلاسفر ز نے فلسفہ وجودیت کے تمام تر امکانات مثلا لامذہبیت، نفسیاتی بے گا نگیت، سماجی انکاریت اور انسانی لامعنویت پر خوب ہی کھل کر لکھا۔

فلسفہ وجودیت کی فکری پراسرریت میں مزید نفسیاتی شدت بیسویں صدی کے آغاز میں ہوئی جب انسانی زندگی کی بے معنیویت پہلی عالمگیر جنگ میں بیس ملین، انفلونزا کے ایپڈی مک پھیلنے کے سبب سو ملین اور دوسری بڑی عالمگیر جنگ کے دوران اسی ملین افراد کی ہلاکتوں کی شکل میں سامنے آگئی۔

اس تمام تر سیاسی و سماجی نا انصافیوں میں ’خدائی قدرت‘ کی پراسرار خاموشی نے عام انسانی ذہن کے ذخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا اور پھر مذہبی دلاسوں، قصوں، کہانیوں اور بعد المرگ جیسے افسانوں کے بجائے انہیں فلسفیانہ اور سائنسی انداز میں نفسیاتی رویوں کوسمجھنے کی کوشش پر آمادہ کیا جو اُن کے زمینی سچ اور فطری حقائق کے قریب ترین تھے۔ فلسفہ وجودیت یعنی کائنات اور انسان کی حقیقت بے معنوی ہے اور انسانوں کو اس بے معنوی کائنات میں اپنے اچھے یا برے اعمال کی ذمہ داری خود ہی قبول کرنی ہوگی۔

لامعنویت سے پیدا ہونے والی لاتعلقی، بے گانگیت اور سماجی انکار سے پیدا ہونے والی اخلاقیات کسی بھی صورت سے مذہبی و سماجی طے شدہ اصولوں کی اخلاقیات سے مختلف ہوسکتی ہیں مگر اُن کی ہیت سراسر ایک ایسی کرخت سچائی کی بنیادوں پر تعمیر ہوگی جس سے انسانی نفسیات کے نئے سائنسی ڈھانچے تیار ہوں گے جو منافق، ریاکار اور دوغلی فطرت کے نہیں ہوں گے جو بدقسمتی سے مذہب نے پیدا کردیے ہیں۔

نوبل لاریٹ البرت کاموز کے ناول اجنبی ( دی اسٹرینجر) کا مرکزی کردار مارسالٹ ایک ایسی ہی بے معنوی کائنات کا مثالی نمونہ شہری ہے جو سوسائٹی کے مصنوعی سانچے میں خود کو ایک اجنبی کی شکل میں پاتا ہے۔ وہ صرف سچ بولتا ہے، وہ جذبات سے قطعی عادی ہے اور اُس کا مزاج، برتاؤ اور سماجی تعلقات اُس کی جسمانی ضرورتوں، موسمی اب و ہوا اور مواقعوں کے لحاظ سے قطعی عارضی نوعیت کے ہیں۔ اُس کے لیے طے شدہ مذہبی اور دیگر سماجی اخلاقی قدریں نقلی اور مضحکہ خیز ہیں۔

ناول کے سفر میں البرٹ کاموز دکھاتا ہے کہ وہ دلفریب موسم کے اثر سے مرعوب ہو کر جسمانی کیفیتوں کو انجوائے کرتا ہے اور تکلیف دہ لمحات کو ارادی یا غیر ارادی طریقوں سے نظر انداز کرتا ہے مگر پھر کہانی کے ایک حصے میں سخت موسمی اثرات، سماجی دباؤ اور اندرونی خلجان و پیچ و تاب کے سبب وہ اُس منزل تک پہنچ جاتا ہے جہاں لامعنوی کائنات پر اُس کی لاشعوری دلیل بالاخر شعوری منزل کی تمام حدو ں کا جواب دینے پر راضی ہوجاتی ہے بس ٹھیک اُس جگہ پر ناول کا کلائمکس نظر آتا ہے۔

ناول کا پہلا حصہ واقعات کی ایک تواتر قطار ہے جن سے مارسالٹ مختلف طرح کی صورت حال سے دوچار ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ناول کا پہلا جملہ ہی چونکا دینے والا ہے جب ماسالٹ کو ایک یا دو دن پہلے ہی اپنی مرنے والی ماں کے مرنے کے دن کو یاد رکھنے میں کچھ دشواری کا سا احساس ہوتا ہے کیونکہ اُس کے لیے یہ کوئی اہم لمحہ نہیں ہوتا ہے جیسا کہ زندگی میں شامل ہر ایک شے اُس کے لیے سراسر بے معنوی ہے۔ وہ ماں کے جنازے میں شرکت کے لیے جاتا ہے تو وہاں موجود لوگوں کے احساس غم کو اچھبنے سے دیکھتا ہے اور پھر فورا نظر انداز کرکے زندگی کے معمول پر آجاتا ہے۔

اگلے ہی دن وہ اپنی نئی گرل فرینڈ کے ساتھ ایک کامیڈی فلم دیکھتا ہے اور پھر اُس کے ساتھ سیکس بھی کرتا ہے پھر چند دنوں میں وہ اپنے آفس کے کولیگ ایمینول کے ساتھ ہمیشہ کی طرح وقت گزارتا ہے فلمیں دیکھتا ہے، کھانے کھاتا ہے، گھومتا ہے پھرتا ہے اور گپ لگاتا ہے۔ اگلے ہفتے وہ اپنے پڑوسی ریمنڈ کے ساتھ وائن پیتا ہے اور اس دوران بنا کسی نقصان و فائدے کے خیال سے ایک ایسا خط بھی لکھ کر دے دیتا ہے جو ریمنڈ کو اپنی پرانی گرل فرینڈ پر تشدد کرنے میں مدد کرتا ہے۔

اسی دوران وہ اپنے ایک دوسرے پڑوسی سلامنو کو اس کے کھوئے ہوئے کتے کی یاد میں روتے ہوئے دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ اُس میں اور اس کی مری ہوئی ماں پر رونے والوں میں کچھ خاص فرق تو نہیں ہے۔ بالاخر کہانی میں ایک ایسا موڑ آتا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ریمنڈ اور اُس کی گرل فرینڈ کے بھائی کے جھگڑے کی زد میں اتفاق سے آجاتا ہے اور پھر غیر ارادی طور پر اُس کے بھائی کے قتل کا سبب بن جاتا ہے۔ کہانی کے ان تمام واقعات کی قطار کے ذریعے البرٹ کاموز ماسالٹ کے اردگرد روایتی مذہبی و سماجی اقدار اور اخلاقی توقعات کا جال اُس کے خلاف شہادتوں کی شکل میں اچھی طرح سے بُن دیتا ہے اور یوں ناول کے دوسرے حصے میں وہ ماسالٹ کو ایک مکمل اجنبی کی شکل میں مذہبی و سماجی اخلاقی روایتوں کے کٹہیرے میں مجرم کی صورت لاکھڑا کرتا ہے۔

ناول کا دوسرا حصہ بیک وقت دلچسپ اور مشکل ہے کیونکہ اس دوران ماسالٹ کا تصورِ لامعنویت جو ناول کے پہلے حصہ کے دوران صرف اُس کے لاشعور کا حصہ تھا وہ وکیل استغاثہ، جج اور مذہبی منسٹر سے جرح کے دوران اُس کے شعور میں اُتر آتا ہے اور وہ پوری سچائی سے اور بھرپور طریقے سے اپنے تصور حیات کا دفاع کرتا ہے اور اُس کے خاطر مذہبی اخلاقی اقدار کے علمبردار حضرت عیسی کے مخالف مگر متوازن نظر آتا ہے۔ یوں یہ کہانی اپنے منطقی انجام پر پہنچتی ہے اور پڑھنے والوں کے لیے کئی ایک فکری ذاویے کھول دیتی ہے۔

دی لائبریری ودھ بلند اقبال میں راقم نے ناول نگار ابرٹ کاموز کی ڈرامائی زندگی، ناول ’دی اسٹرنجر‘ کی دلچسپ کہانی اور اُس میں پوشیدہ فلسفہ وجودیت و بے گائنگی کے علامتی اظہار کو اپنے تئیں ایک دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے تاکہ دوست اس کتاب سے بھرپور انداز سے لطف اندوز ہو۔

لنک:


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).