بن لادن اور خیبرپختونخوا کی کچی کلیاں


اسلام کا ہیرو نمبر ون

میرا شیر اسامہ بن لادن

میرے شیر اسامہ نہ گھبرا

ابھی ایک اسامہ دیکھا ہے

اب لاکھ اسامے دیکھو گے

اسلام کا ہیرو نمبر ون۔

میں اسکول میں تھا، جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ اچانک ایک روز اسکول کی اسمبلی میں قرآن کی تلاوت کے ساتھ یہ نظم بھی پڑھی گئی۔ اساتذہ نے نظم پڑھنے والے بچے کو خوب سراہا، تالیاں پیٹی گئیں۔ مکمل بول مجھے یاد نہیں چند اشعار اوپر لکھ دیے ہیں۔ اسکول میں اسامہ بن لادن کو ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے نا پختہ ذہنوں میں ایک خطرناک بیج بویا گیا، بیج جسے گزرتے وقت کے ساتھ مغرب سے نفرت اور انتہاپسندی سے سیراب کیا گیا۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہماری سرزمین ہی سے پکڑ پکڑ کے افغانیوں کو امریکا کے سپرد کیا گیا۔ طالبان کے دور حکومت میں افغان سفیر بھی ان میں سے ایک ہیں۔

ایک دن چشم فلک نے دیکھا کیسے اسلام کے نمبر ون ”ہیرو“ کو امریکا نے ایبٹ آباد میں کارروائی کرکے ہلاک کردیا۔

امریکا نے جب افغانستان پر حملہ کیا، میں اسکول میں پڑھتا تھا۔ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ کیوں ہورہا ہے؟ کچھ علم نہ تھا۔ چند اساتذہ نے امریکا کو گالیاں دیں۔ عالم اسلام کو خطرے میں ثابت کیا۔ جہاد کے فوائد بیان کیے اور بس! کچی عمر، کچہ ذہن جو بات جیسے بتائی جاتی اس پر ایمان لے آتے۔ معصومیت ایسی کہ استاد کی ہر بات سچ لگتی۔ کاش ایسا ہی ہوتا۔

آج سوچتا ہوں۔ اگر اس وقت سچ بولا گیا ہوتا۔ تربیت کی گئی ہوتی۔ تو اس وقت جو بچے تھے، اب جوان ہیں اس معاشرے کو کہاں سے کہاں لے جا چکے ہوتے۔ اتنے برس بیت جانے کے بعد بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔

خیبر پختونخوا حکومت نے اسکولوں میں پڑھنے والی بچیوں کے لیے عبائے یا پڑدے کو لازم قرار دیدیا ہے۔ حیرانی ہوئی۔ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ کیا حکومت نے نظام تعلیم کو بہتر بنادیا؟ کیا سلیبس کو تازہ دم کر لیا ہے؟ تعلیمی اصلاحات کا وعدہ وفا ہوا؟ اگر نہیں تو زیادہ اہم کیا تھا؟ کچی کونپلوں کے جسموں پر برقعے چڑھانا یا بہتر نظام تعلیم بنانا؟

برسوں پہلے ہم اسکولوں میں اسامہ بن لادن کو ہیرو ثابت کررہے تھے اور آج! آج بچیوں کو پیغام دے رہے ہیں۔ دیکھو اپنے جسم کو مردوں سے چھپاو، ورنہ تمہارے جسم کو نوچ لیا جائے گا۔ اور ذمہ دار بھی تم خود ہی ہوگی۔ ہم نے اتنے عرصے میں کیا سیکھا؟ ہم کتنا بدلے؟

ہماری قوم نے اتنی آسانی سے افغان جنگ کیوں لڑ لی؟ مسلم امہ نامی چورن اتنے بڑے پیمانے پر کیوں اور کیسے فروخت ہوگیا؟ ہم تو بچے تھے۔ سوال اٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ مگر ہمارے بڑے؟ بڑوں نے ایسا کیوں کیا بلکہ آج بھی ایسا کیوں کررہے ہیں؟

اتنے برس بیت گئے، ایک پوری نسل گزرگئی۔ کل جو اسکولوں میں پڑھ رہے تھے آج پڑھا رہے ہیں مگر، آج بھی سچ اور جھوٹ میں فرق واضح نہیں ہوسکا۔ آج بھی وہی چورن فروخت ہورہا ہے بس پیکنگ نئی ہے۔ اشتہار تبدیل ہوگیا مگر چورن وہی برائے فروخت ہے۔

غلطی کو کھلے دل کے ساتھ قبول نہیں کیا گیا۔ جب تک ہم غلطی کو تسلیم نہیں کرلیتے اس سے سیکھ کر آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).