گھوٹکی جلاؤ۔ اسلام بچاؤ


میں جب بھی چشم تصور میں مسجد نبوی ﷺ میں نجران کے عیسائیوں کا وفد بیٹھے دیکھتا ہوں تو روح وجد میں آجاتی ہے۔ مذہبی رواداری کے امین اور امن کے سفیر ﷺ کے لئے درو د و سلام کے دھارے بہہ نکلتے ہیں۔ آپ بھی میرے ساتھ اس منظر کو دیکھئے : عیسائی عالموں، پادریوں کا جبہ دار وفد گلے میں صلیبیں لٹکائے، اپنے روایتی مجسموں، رسم و رواج، لوازمات اور طور طریقوں کے ساتھ حاضر خدمت ہوتا ہے۔ رحمت اللعالمینﷺ (فداہ ابی و امی) اس وفد کا استقبال اپنی روایات اور شان و شوکت کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایسا استقبال کہ مذہبی دنیا میں ایک مثال قائم فرما دیتے ہیں۔ مذہبی رواداری، وسیع تر حوصلے اور اخلاق عالیہ کا قلعہ تعمیر کر دیتے ہیں۔

اس عیسائی وفد کو مسجد نبوی میں ملاقات کا وقت عنایت ہوتا ہے۔ مسجد نبوی ہے اور عیسائیوں کا وفد۔ گفتگو کا دور چلتا ہے تعلیمات، عقائد پر بات ہو تی ہے۔ وفد اخلاق عالیہ سے متاثر ہے۔ پھر کچھ دیربعد ان کی عبادت کا وقت ہو جاتا ہے۔ عیسائیوں کی عبادت کا حال معلوم کرنے کے لئے آپ آج دنیا کے کسی عیسائی گرجے کا چکر لگا لیں۔

وفد نے خیال کیا ہم تو کسی اور مذہب والے کو اپنے گرجے میں عبادت کی اجازت نہیں دیتے۔ ہمیں بھی تو باہر جا کر عبادت کرنا ہو گی۔ یہ تو مسجد ہے اور مسلمانوں کی عبادت گا ہ ہے۔ چنانچہ عرض کیا : یا حضرت ہماری عبادت کا وقت ہو گیا عبادت کرنے کے لئے باہر جانے کی اجازت چاہتے ہیں۔ دوبارہ حاضر خدمت ہوتے ہیں۔ فرمایا جہاں ہم اس وقت بیٹھے ہیں یہ بھی توعبادت گاہ ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہے۔ تمھیں باہر جانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔

وفد کے ارکان حیران و پریشان ایک دوسر ے کا منہ دیکھتے ہیں۔ لیکن پھر رحمۃاللعالمین ﷺکی طرف سے دوبارہ اثبات کا اشارہ پا کر مسجد نبوی ﷺ میں عیسائی طریق کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ آج ان کی عبادت کی کیفیات شکر گزاری کے اور پہلو لئے ہوئے ہیں۔ کیونکہ عبادت تو ہے ہی شکر گزاری، اپنے خالق و مالک کی شکرگزاری۔ اور جب شکر گزار ی کے بیرونی محرکات بھی ہوں توعبادت کا سرور بڑھ جاتا ہے۔ حمدو ثنا کے الفاظ تصویر بننے لگتے ہیں۔ عبادت میں مزہ آنے لگتا ہے۔ وفد آ پ ﷺ کے اخلاق عالیہ سے پہلے ہی متاثر تھا اب عملی نمونہ دیکھ کرگرویدہ کیا دل و جان سے فدا ہو گیا۔

یہ تھا ہمارے آقا و مولیٰ سید ولد آدم محمد ﷺ، کا دوسروں کے عقیدے، مذہب اور روایات کا احترام۔ آپ نے صرف زبانی تعلیمات تک اس کو محدود نہیں رہنے دیا بلکہ عملی نمونہ پیش کر کے تا قیامت اپنی امت اور ساری دنیا کو دوسرے کے عقیدے اور مذہب کے احترام کا سبق دے دیا۔ آپ نے بتا دیا کہ اسلام کس قدر اعلیٰ اقدار اور وسیع حوصلہ مذہب ہے۔ آپ ﷺ کا لایا ہوا دین اسلام اپنے معنوں کے اندر امن و آشتی، صلح و سلامتی، رواداری کو سمیٹے ہو ئے ہے۔

ہادی برحق ﷺ مذہبی رواداری کے سب سے بڑے علمبردار اور سب سے بڑے لیڈرتھے، آج تک ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ کیونکہ آپ سے بڑھ کر کسی اور میں کب یہ طاقت، یہ ہمت اور یہ اسلوب تھا کہ عظیم الشان بنیادوں پر مذہبی رواداری کی عمارت تعمیر کر جاتا۔ آپ ﷺ نے نہ صرف ا من و محبت کے بنیادی اصول سکھائے بلکہ ان خداداد اصولوں پربنیاد رکھ کر امن و سلامتی و رواداری کی روایت قائم کر کے معاشرے کو امن کا گہوارہ بھی بنا دیا۔

آج ہم، آپ ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے، آپ ﷺ پر دورو و سلام بھیجنے والے، گلا پھاڑ پھاڑ کر ”حب رسول“ کا دعویٰ کرنے والے، کس رواداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کس کے عقیدے کا احترم کر رہے ہیں۔ سلامتی کا کون سا پیغام دنیا کودے رہے ہیں۔ ہم تو کلمہ گو کو، اگر وہ ہمارے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا، اپنی مسجد میں گھسنے نہیں دیتے۔ کب کسی عیسائی یا دوسرے مذہب والے کے ساتھ بیٹھ کر اظہار محبت کریں گے۔ اگر کبھی کسی سرکاری مجلس میں کرتے بھی ہیں تو منافقت کے علاوہ کچھ نہیں۔

ہم دوسرے مذاہب والوں کو اپنی مسجد میں عبادت کی اجازت دیں؟ نہیں نہیں ہم تو ان کی عبادت گاہیں قائم بھی نہیں رہنے دیں گے۔ ہم نے تو اسلام نافذ کرنا ہے۔ اپنے اوپر نہیں دوسروں کے اوپر ”نافذ“ کرنا ہے۔ ہم نے مسلمانوں کی تعداد بڑھانا ہے لیکن تبلیغ و تربیت اور عملی نمونے سے نہیں۔ یہ تو بہت مشکل کام ہیں۔ کون مغز ماری کرے ان ”کافروں“ کے ساتھ؟ کون امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا پھرے؟ ہمارے پاس وقت کہاں۔ ابھی تو چھ ارب آبادی غیرمسلم ہے۔ سب پر اسلام ”نافذ“ کرنا ہے۔ یہ ”ناپاک کافر“ ہمارے سامنے حیثیت کیا رکھتے ہیں یہ تو ہمارے عالم دین کے ایک ”اعلان جہاد“ کی مار ہیں۔

اب ایک اعلان کافی ہے۔ صرف ایک الزام کافی ہے۔ خواہ یہ الزام ایک چودہ سالہ نابالغ کی طرف سے ہی لگایا جائے۔ مسجد میں ”اعلان جہاد“ کرو باقی کام ہم خود کر لیں گے۔ آپ اعلان کرو پھر دیکھو ”عاشقان رسول“ کس سج دھج سے ”حب رسول“ سے سرشار باہر آتے ہیں۔ وہ تو اشارے کے ہی منتظر ہیں۔ ان ”کافروں“ کو کس نے حق دیا ہمارے مسلمان معاشرے میں رہ سکیں۔ یہاں بزنس کریں۔ سکول بنائیں۔ فیکٹریاں لگائیں۔ علاقے کے لوگوں کی خدمت کریں۔ نہیں نہیں یہ تو بہت بڑے مجرم ہیں اور ان کے ”جرموں“ کی فہرست بہت طویل ہے۔ مجاہدو! سب اپنے اپنے ہتھیار لے آؤ۔ ایمان تازہ کرو۔ جہاد کی صدا آئی ہے۔ لاٹھیاں ڈنڈے، چاقو چھریاں، سب لے آؤ۔

واہ! آج میرے وطن میں ”جہاد“ کرنا کیسا آسان کر دیا مولوی نے۔ پیشگی تیاری کی ضرورت نہ زیادہ سازو سامان کی۔ بس ایک اعلان ہوا اور ”مجاہدین“ نکل پڑے۔

صدا آتی ہے! جلدی کرو۔ سب کو منظور؟ منظور۔ منظور۔ مجمع پرجوش ہے۔ بس اپنے لیڈر کے اشارے کے منتظر۔ صدقے یا رسول اللہ۔ کیسا عمدہ موقع ”جہاد“ کا ہے۔ کوئی بچ کے جانے نہ پائے۔ ڈالو پیٹرول لگاؤ آگ۔ نہیں ٹھہرو ابھی۔ حب رسول ﷺ کا نعرہ تو لگا نہیں۔ ”غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے۔ “ اس لئے بانٹو موت۔ کیونکہ ہمیں غلامی رسول میں موت بانٹنا قبول ہے۔ اپنے نفس پر موت وارد کرنا ہمارا کام تھوڑی ہے۔ اللہ ا کبر۔

آگ لگے۔ آشیانے جلیں۔ کسی کی ساری عمر کی جمع پونجی لٹ جائے۔ کوئی پرواہ نہیں۔ معصوموں کی چیخ و پکار آسمان کو چھو رہی ہے۔ پر ”عاشقان رسول“ کے نعروں کا کوئی جواب نہیں۔ یہ آہیں یہ سسکیاں ان نعروں کے آگے کیا حیثیت رکھتی ہیں۔

گھوٹکی ہو کہ گھسیٹ پورہ، سیالکوٹ ہو کہ گوجرانوالہ۔ عیسائی ہو کہ احمدی۔ ہندو ہو کہ شیعہ۔ جس کو ہم نے کافر کہ دیا وہ کافر۔ پاکستان میں اقلیتیں واقعی برابر کی شہری ہیں۔ سب اقلیتیوں کے ساتھ یکساں سلوک۔ سب کا ایک ہی حل۔ گھیراؤ جلاؤ، ختم کرو۔ اہل دانش ایک گھوٹکی کو رو رہے ہیں یہاں تو۔ ”مجاہدین“ ہزار گھوٹکی جلانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ایک نسل پروان چڑھ چکی ہے جسے ہم نے اپنا گھر جلا کر بھنگڑے ڈالنا اور دور کسی ملک میں پامال ہوتے انسانی حقوق پر مگر مچھ کے آنسو بہانا سکھایا ہے۔

اے مرے اہل وطن، یہ آگ جو آئے روز ہم جلاتے ہیں، کہیں اکٹھی ہو کر ہم سب کو بھسم کرنے نہ آجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).