نظام تعلیم پر انگریزی زبان کی اجارہ داری


میں تیسری جماعت میں تھا کہ میرے والد صاحب ایک یونین کونسل کے ناظم منتخب ہوگئے۔ ان کا خیال تھا کہ سرکاری اداروں کے نظام تعلیم میں خرابی کی اہم وجہ حکومتی نمائندوں کی ان اداروں میں عدم دلچسپی ہے کیونکہ ان کے بچے ان اداروں کی بجائے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں لہذا انہوں نے اعلان کیا کہ آج سے میرے تمام بچے سرکاری سکولوں میں پڑھیں گے۔ اسی مد میں انہوں نے مجھے اور میرے دیگر بہن بھائیوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کروا یا۔ تب سے اب تک ہم تمام بہن بھائی سرکاری تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں۔

میں نے ان سکولوں کے ماحول سے بہت کچھ سیکھا۔ سکول دور میں ہمیشہ ایک سرگرم اور سوشل طالب علم رہا۔ کھلے کلاس رومز، بڑے گراؤنڈز، درختوں کی چھا ؤں میں کلاسز کا انعقاد یقینًا ایسی سہولیات تھیں جو میرے شہر کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں میسر نہیں تھیں۔ اس کھلے ماحول میں میری ذہنی اور جسمانی نشوونما بڑھی، سوچنے سمجھنے اور ہر مسئلے کو گہرائی اورتنقیدی نقطہ نظر سے پرکھنے کا موقع ملا۔ اور شاید اسی ماحول کی وجہ سے میری ذہنی اور جسمانی مدافعت میں اضافہ ہوا۔

کلاسز کی بے فکری تھی سوشل انٹریکشن زیادہ تھا مگر دیسی اور روایتی ماحول ہونے کی وجہ سے میں اپنی انگریزی پر خاطر خواہ کام نا کر سکا۔ چھٹی جماعت میں پہنچ کر انگریزی سے تھوڑی شناسائی ہوئی اورتبھی انگریزی کے کچھ بنیادی اصول پڑھے اور سیکھے جنہیں سمجھتے سمجھتے 10 سال لگ گئے اور اب جا کر انگریزی پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہوا۔ یقینًا اس وقت (جب میرا انگریزی سے تعارف ہوا) ایچی سن، لکاس، ایل جی ایس، اور دیگر پرائیویٹ اداروں کے بچے انگریزی میں ہم سے کہیں بہتر ہوں گے جس کا ادراک مجھے لاہور آ کر بہت شدت سے ہوا اور یہ فطری یا غیر فطری کمپلیکس ہمیشہ میرے ساتھ جڑا رہا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ صرف میری نہیں بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ہر طالب علم کی کہانی ہے۔

ہر میرے ذاتی مشاہدے اور تجربے کے مطابق سرکاری اور نجی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی ذہنی صلاحیت میں فرق انتہائی کم ہے۔ لیکن ایک بنیادی فرق صرف انگریزی زبان کا ہے۔ اور نجانے کیوں اس فرق کو نمایاں کیا جاتا ہے گو کہ ذہانت ماپنے کا پیمانہ صرف انگریزی زبان پر دسترس بنا دیا گیا ہے۔ صرف اسے پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے جو بہتر انگریزی جانتا ہو۔ گو کہ آپ ذہین ہوں وہ بھی صرف انگریزی میں۔

لارڈ مکالے کا مرتب کردہ انگلش ایجوکیشن ایکٹ 1835، آزادی کے 72 سال بعد بھی ہماری معاشرتی تفریق کا باعث بن رہا ہے۔ بہت سے پڑھے لکھے نوجوان انتھک محنت سے کسی جگہ پہنچتے ہیں تو یہ زبان ان کی کامیابی میں آڑے آجاتی ہے اور وہ طلباء جن کی بنیاد میں انگریزی زبان شامل ہے ان سرکاری اداروں سے پڑھنے والے طلباءسے کہیں آگے نکل جاتے ہیں اور زبان کا یہ فرق طبقاتی استحصال کا باعث بنتا ہے اور یوں دیگر نسلوں تک منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔

سی ایس ایس کے امتحان سے لے کر بڑی بڑی ملٹی نیشنلز کی ضرورت انگریزی زبان ہے۔ ٹاٹوں پر بیٹھ کر پنجابی، سندھی، سرائیکی، بلوچی اور پشتو زبان میں علم حاصل کرنے والا انسان کیسے اپنا علم انگریزی میں سمجھائے؟ الٹا علم کا یہ زاویہ اس کے ذہنی انتشار اور احساس کمتری کا باعث بنتا ہے۔

یہ تاثر ہر گز نا لیا جائے کہ میری نظر میں اس زبان کی اہمیت نہیں یقینًا انگریزی بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے اور دنیا میں دیگر ممالک کے لوگوں سے بات چیت کا واحد ذریعہ ہے مگر اسے نظریہ اتم کے طور پر ذہانت کا پیمانہ بنا لینا قدرے زیادتی ہے۔ علم کا حاصل کرنا لازم ہے مگر کس زبان میں حاصل کیا گیا ایک غیر مشروط عمل ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ جدید علوم کا بہت بڑا حصہ صرف انگریزی زبان میں مرتب ہورہا ہے اور تمام نئی تحقیق کا مواد انگریزی میں ہم تک پہنچتا ہے۔ مگر اہل علم اس کا اردو ترجمہ کرنے کی بجائے خود انگریز پرستانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور طلباء کا بہت بڑا حصہ ان جدید علوم سے بہرہ ور ہونے سے رہ جاتا ہے۔ زبان کی تفریق ختم کر دی جائے تو ہم خود جدید علوم مرتب کر سکتے ہیں مگر ہمارے طلباء کی ساری توانائیاں جدید علوم دریافت کرنے کی بجائے انگریزی زبان سیکھنے میں لگ جاتی ہیں اور انگریزی علوم پر انحصار بڑھتا چلا جاتا ہے۔ چائنہ اور جاپان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ انہوں نے کسی بھی زبان کا سہارا لئے بغیر اپنی مقامی زبانوں میں جدید علوم اپنے لوگوں تک پہنچائے۔

زبان کا یہ مسئلہ طبقاتی ہے اور یقینًا طبقاتی نظام کی جڑ ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بڑھتا ہوا انگریزی زبان کا کلچر ہماری علاقائی زبانوں اور قومی زبان کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ ہمیں استحصال کی دیگر جہتوں کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کے اس بڑھتے ہوئے استحصال سے لڑنا ہے وگرنہ ہمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم ہو کر انگریزی بولنے والوں اور گونگوں میں تقسیم ہوکر رہ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).