گوالے پرنسپل کا کینٹین، کپتان کی ریاستِ مدینہ اور طالبات کا عبایہ!


یادش بخیر، گوالے پرنسپل کی طرح وزیراعظم عمران خان نے بھی ریاستِ مدینہ کی بنیاد بھینسیں بیچ کر رکھی تھی۔ اب یہ ریاستِ مدینہ کیا ہے؟ یہ کوئی معاشی و اقتصادی یا سیاسی ماڈل ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ گوالے پرنسپل کا کینٹین ہے جو ہر آنے والے کے کسی بھی سوال کا جواب ہے۔ ہمارے معاشرے میں مذہب کو لائسنس ٹو کِل کی حیثیت حاصل ہے۔ آپ جنسِ ارزاں کی طرح دینِ خدا کی باتیں کریں تو آپ کو سات خون معاف ہوسکتے ہیں۔ آپ خلافت، شریعت، غلبہ اسلام، قرونِ اولی، اقامتِ دین جیسی اصطلاحات کا بر محل استعمال جانتے ہوں تو لوگ اپ کی باتوں پر اپنے پیدائشی اور انسانی حقوق قربان کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔

آپ ایک بات پر غور کیجیے گا۔ آپ کامل تین ماہ پیٹرول بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے پر روئیں گے، وزیر اعظم اور ان کے بزرجمہر نظر نہیں آئیں گے۔ اچانک کسی خاص موقع پر وہ پارلیمنٹ تشریف لائیں گے یا پھر ٹی وی پر نمودار ہوجائیں گے اور حضور ﷺ کی شان میں ایک خطبہ دے کر چلے جائیں گے۔ کچھ دن آپ اس خطبے کے سحر میں رہیں گے مگر کب تک؟ بھوک پیاس ستائے گی تو آپ پھر سے چلانے لگیں گے۔ جب آپ کی آہ و فغاں آسمان کے بالکل قریب ہوگی تو خان صاحب پارلیمنٹ آکر پاکستان کی ناموس پر ایک ایسی تقریر فرما دیں گے جو ریاستِ مدینہ، دو قومی نظریہ، حضرت عمر، علامہ اقبال اور قائد اعظم کے بے ترتیب حوالوں سے سجی ہوگی۔

آپ کے کھولتے ہوئے خون کو کچھ قرار سا آجائے گا۔ کچھ کسر اگر رہ گئی ہو تو وزیر اعظم صاحب بذریعہ ٹویٹ آپ کو خوش خبری سنا دیں گے کہ پارلیمنٹ میں غباروں سے بنا ہوا جہازی سائز کا قومی پرچم لہرادیا گیا ہے۔ امتِ مسلمہ کا خون پھر سے ٹھنڈا ہوجائے گا کہ چلو بندہ کم از کم خوش عقیدہ اور محب وطن تو ہے۔ ہمیں دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہورہی تو کیا ہوا، یہ کم ہے کہ اگلے کی انگلیوں میں تسبیح کے دانے گھوم رہے ہیں۔

ایک آدھ ماہ بعد جب آپ ٹیکس کی نئی اقسام دیکھیں گے تو حب الوطنی، دینی غیرت اور تسبیح والے سحر سے باہر آجائیں گے۔ آپ کی چیخیں جب قریب قریب عرش ہلانے والی ہوجاتی ہے تو خان صاحب پھر سے تسبیح لہراتے ہوئے آئیں گے اور انکشاف کردیں گے، قائد اعظم نے یہ ملک ایشین ٹائیگر بننے کے لیے حاصل نہیں کیا تھا۔ یہ ملک توانہوں نے اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کے اعلی قوانین آزمائے جائیں گے۔

پی ٹی آئی نے پچھلی مدت میں پختونخوا کی سطح پر کوئی چمتکار نہیں کیا۔ عمران خان صاحب نے بتایا، ایک تو چالیس سال کا گند ایک سال میں ختم نہیں ہوسکتا اور دوسرا یہ کہ جب تک وفاق میں ہماری حکومت نہیں ہوگی تب تک ہم پختونخوا کے تِلوں سے تیل نہیں نکال سکتے۔ اب خیر سے پختونخوا میں حکمرانی کرتے ہوئے انہیں سات برس ہوگئے اور وفاق میں حکومت بھی آچکی ہے۔ باقی کا انقلاب تو رکھیے ایک طرف، اس پورے عرصے میں یہ بھی طے نہیں ہوپایا کہ بی آرٹی نامی اونٹ کو کس کروٹ بٹھایا جائے۔

تعلیم کا انقلاب پہلے برس جہاں سے چلاتھا وہاں سے دو قدم پیچھے جا چکا ہے۔ اب تعلیم کے شعبے میں پیدا ہونے والے سوالات جب گہرے ہوگئے تو جواب میں پختونخوا حکومت نے کہا، ہم نے فیصلہ کردیا ہے کہ عورتوں کے سرکاری کالجز میں ہونے والی کسی تقریب میں مرد مہمانوں کی آمد پر پابندی ہوگی۔ مسلمانوں کی روح سے اس فیصلے کو ایسی تسکین پہنچی کہ بھول ہی گئے ہم بات کیا کررہے تھے۔ کچھ عرصہ بعد تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی پر عوام کو اپنی بات یاد آئی تو عوام نے کہا، ہاں تو ہم کہہ رہے تھے۔ ۔ ۔ بس ابھی اتنا کہا تھا کہ پختونخوا حکومت نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے تمام سرکاری اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے عبایہ لازم کردیا۔

یعنی آپ اپنے دکھوں کا روزنامچہ حکومت کی میز پر رکھ کر ملک کی بربادی کا اگر سوال کریں تو آگے سے پوچھتی ہے، وزیر اعظم کی ہر تقریر میں ریاست مدینہ کا تکرار ہورہا ہے؟ جی ہاں! اسلامی قانون کے حوالے مل رہے ہیں؟ جی ہاں! علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کی اصول پسندی کا تذکرہ ہورہا ہے؟ جی ہاں! علی محمد خان اور شہریار آفریدی دروغ گوئی کرنے سے پہلے درود شریف پڑھ رہے ہیں؟ جی ہاں! فحاشی اور عریانی کے حوالے سے حکومت تشویش کا اظہار کرتی دکھائی دے رہی ہے؟ جی ہاں! تو بالک ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ سب ہورہا ہو اور پھر بھی یہ ملک برباد ہورہا ہو؟ حکومت جنجھلاکر فورا رفوگیر کی طرف دیکھتی ہے کہ پائیان ہن ایہہ کی ہوریا؟ (بھائی جان یہ کیا ہو رہا ہے؟) جواب آتا ہے، ہمارے کینٹین میں پاؤ پاؤ کے ایٹم بم بھی ہیں۔ حکم کریں کتنے تولنے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2