آرٹیکل 149 : سندھ کے عوام پیپلزپارٹی نہیں سندھ کے ساتھ ہیں


ایک مرتبہ پھر وفاق سندھ کی دارالحکومت کراچی کو الگ انتظامی یونٹ بنانے کا راگ آلاپنے لگا ہے۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے آرٹیکل 149 کے نفاذ کا حوالہ دے کر وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے۔ کچھ دن قبل وفاقی وزیر قانون نے ٹی وی چینل کے ایک ٹاک شو میں کہا کہ وفاق اب کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنے اختیارات استعمال کرنے جا رہا ہے۔

اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے کراچی کمیٹی بھی اس مقصد کے لیے تشکیل دی گئی کہ کراچی کے انتظامی امور اور مسائل کو خود دیکھیں گے۔ اس کمیٹی کا سربراھ وفاقی وزیر قانون نسیم فروغ کو بنایا گیا۔ اسی طرح فروغ نسیم کو اپنے ارادے کھل کر سامنے لانے کا موقع مل گیا۔ ابھی کراچی کمیٹی پر سندھ حکومت اور سندھ کی عوام نالاں تھی، تو اگلے دن آرٹیکل 149 کے نفاذ کی باتیں ہونے لگی۔ جس پر پوری سندھ کی عوام نے سخت ردعمل دے کر اسے سندھ کی تقسیم کی سازش قرار دیا ہے۔

سماجی روابط کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر ”سندھ از ون، سندھ ریجیکٹس کراچی کمیٹی“ ٹاپ ٹین ٹرینڈ بن گئے ہیں۔ ادھر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ردعمل میں کہا ہے کہ ”سندھ کو توڑنی کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے، کل بنگلادیش بنا تھا، اگر ظلم اسی طرح جاری رہا تو سندھو، سرائیکی اور پشتون دیش بھی بن سکتے ہیں۔ “

جب آرٹیکل 149 ( 4 ) لاگو کرنے پر زور دیا جا رہا ہے تو اس شق کے مطابق ’وفاق کی ایگزیکٹو کمیٹی کسی صوبے کو ایسے طریقے کے بارے میں ہدایت دینے کی مجاز ہوگی، جس میں اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کا پاکستان یا اس کے کسی حصے کو امن و سکون یا اقتصادی زندگی کے لیے کسی سنگین خطرے کے انسداد کی غرض سے استعمال کیا جانا ہو۔ ‘

جب کہ اس آئین کی پہلی شق میں کہا گیا ہے کہ ’ہر صوبے کی ایگزیکٹو اتھارٹی اس طرح استعمال کی جائے گی کہ وہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کے استعمال میں رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی یا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی اور وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کسی صوبے کو ایسی ہدایات دینے کی مجاز ہوگی جو کسی مقصد کے لیے وفاقی حکومت کو ضروری معلوم ہو۔ ‘ اس آرٹیکل کی دوسری شق اٹھارویں ترمیم کے بعد خارج کردی گئی ہے، جبکہ تیسری شق کے مطابق ’وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کسی صوبے کو ایسے ذرائع مواصلات کی تعمیر اور نگہداشت کے لیے ہدایت دینے کی بھی مجاز ہوگی جنہیں قومی یا فوجی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہو۔ ‘

حتہ کہ آئین میں بھی بالکل واضح ہے کہ کس صورتحال میں اس کا نفاذ کیا جا سکتا ہے۔ اب تو کراچی میں امن و سکوں کی صورتحال ماضی سے مقابلے میں کافی بہتر ہونے کے ساتھ کئی معاملات ٹھیک ہیں۔ صرف کچرے کو بنیاد بنا کر اتنا سنگین قدم اٹھانے کی کوشش سے کیا تاثر دیا جا رہا ہے؟ جب کہ کچرے کے حوالے ورلڈ انڈیکس کی 2018 والی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 10 گدلے شہروں میں فیصل آباد تیسرے اور لاہور دسویں نمبر ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے کمیٹیاں ان شہروں میں بنائی جائے تاکہ شہروں کی حالت سدھر سکے۔

کراچی کمیٹی تشکیل دینا، اور آرٹیکل 149 لاگو کرنی والی باتیں پی ٹی آئی حکومت کی ایک چال ہے، وہ چال صرف آنے والے بدلدیاتی انتخابات کی تیاری کے سلسلی میں چلی گئی ہے۔ مگر سندھ سے کراچی کو الگ بنانے والی ہر کوشش کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟ کیا ہم نے ماضی سے بھی سبق حاصل نہیں کیا؟ ملک بنے 24 برس بھی نا ہوئے تو وفاقی مداخلت کے سبب بٹوارہ ہوگیا۔ ون یونٹ کے دور میں بھی سندھ میں زبردست مزاحمت سامنے آئی۔

کافی عرصے سے مقتدر حلقوں کی جانب اسلام آباد سے وائسرائے مقرر کرکے سندھ کے معاملات چلانے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں ہے۔ مگر اس مرتبہ کراچی کو سندھ سے الگ کرکے وفاق کا انتظامی یونٹ بنانی کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

جب پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مقامی نظام کے بارے میں قانون سازی کی جا رہی تھی تو اس وقت بھی سندھ کی عوام اس قدم پر پیپلزپارٹی کے خلاف سراپا احتجاج تھی، اور زبردست مزاحمت کی تھی۔ تو اب کسی صورت میں بھی سندھ کی عوام نہیں چاہیں گے کہ صوبہ سندھ کی خودمختاری کے خلاف کوئی بھی اقدام اٹھائے جائے۔ ان سب کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

صوبائی معاملات میں وفاقی مداخلت کی بھاری قیمت اٹھانی پڑی ہے تو اب پھر ایسا کوئی قدم، جو سندھ کی وحدانیت پر وار کے مترادف ہو، اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے۔ سندھ کے باشعور عوام پیپلزپارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ سندھ کی وحدانیت اور اس کی روح کے ساتھ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).