ڈنمارک کی دوشیزہ، فلسطینی نوجوان اور اسرائیلی ایجنٹ


احمد کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ دن، ہفتے، مہینے گزرگئے۔ پولیس کے پاس بھی کسی قسم کاکوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ میں باربار شارلیٹ کو فون کرتا رہا وہ مجھے بتاتی رہی تھی۔ اس نے ڈنمارک کے سفیر سے ملاقات کرکے اسے سب کچھ بتایا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کوتفصیلات دیں مگر احمد کی کوئی خبر نہیں تھی۔ ڈینش حکومت اور ایمنسٹی انٹرنیشنل دونوں ہی بے بس اور لاچار تھے۔

چھ ماہ گزرنے کے بعد وہ ڈنمارک چلی گئی۔ میرا اس سے فون پر رابطہ تھا۔ ایک برفانی رات کو اس کا فون آیا کہ احمد کی لاش اسرائیل اور فلسطین کی سرحدوں پر واقع چیک پوائنٹ قالندیاکے پاس ملی ہے۔ پچھلے ہفتے وہ احمد کو دفن کرکے فلسطین سے واپس ڈنمارک آئی تھی۔

میں شارلیٹ سے ملنے اوسلو آیاتھا۔ بس سے اُتر کر میں بہت آسانی سے اس کے چھوٹے سے گھر کے سامنے پہنچ گیا۔ اس نے کہا بھی تھا کہ وہ ایئرپورٹ آجائے گی مگر میں نے اسے منع کردیا۔ اوسلو میں پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام ایسا ہے کہ بہت آسانی سے اور بہت جلدی شہر کے مختلف علاقوں میں پہنچا جاسکتا ہے۔ ایئرپورٹ سے سفر کا بہتر طریقہ بھی یہی ہے۔ دنیا کے مہذب ممالک میں شہروں میں سفر کی سہولتیں عوام کے لئے بنائی جاتی ہیں نہ کہ خواص کے لئے۔ یہ تو ہمارے جیسے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں عوام مویشیوں کی طرح سفر کرتے ہیں اور امیروں کے لئے سڑکوں کے جال بچھائے جاتے ہیں اور پلیں بنا کر ان کے لئے راستے صاف کیے جاتے ہیں۔

دروازہ اسی نے کھولا تھا۔ چھوٹے سے کمرے میں ٹیبل کے اوپراحمد سعید کی مسکراتی ہوئی تصویر لگی ہوئی تھی۔ وہ میرے گلے لگ گئی، دل بھر کر روئی۔ میں بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں پاسکا۔ ”وہ چلا گیا لیکن جیسے گیا ہے ایسے نہیں جانا چاہیے تھا اُسے، مگرفلسطین میں توروز ہی ایسا ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ یہ سب کچھ لندن میں ہوا۔ صیہونیوں نے لندن میں بھی سب کوخرید لیا ہے۔“ اس نے آہستہ آہستہ رو رو کر رک رک کر کہا تھا۔

”مگر وہی کیوں، شارلیٹ، وہی کیوں وہ تو بڑا سیدھا سا آدمی تھا۔ پڑھا لکھا، نہ مارنے میں نہ جنگ میں، تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے والا جنونی فلسطینوں کے خلاف تھا وہ، مذہبی انتہا پسندی سے نفرت تھی اسے۔ کیوں کیا اس کے ساتھ ایسا انہوں نے؟“ میں نے سوال کیا تھا۔

”احمد کے چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ احمد اور احمد کے چھوٹے بھائی کے علاوہ سب لوگ فلسطینیوں کی جنگ میں شامل ہیں۔ اس کی ایک بہن چار سال پہلے خودکش بمبار بن کر پانچ صیہونی فوجیوں اور کئی یہودیوں کو موت کا نوالہ بناچکی ہے۔ احمد کبھی بھی خوش نہیں تھا اس واقعے سے۔ وہ اس قسم کی کارروائیوں کے خلاف تھا۔ اس کا ایک بھائی اسرائیل کی جیل میں ہے۔ دو بہنیں غزہ میں کہیں چھپی ہوئی ہیں اور ایک بھائی اسرائیل میں کہیں پر چھپا ہوا ہے۔ وہ احمد سے ان کا پتہ پوچھ رہے تھے۔ وہ احمد کو اسمگل کرکے انگلستان سے اسرائیل لے گئے اور جب مقصد حاصل نہیں ہوا تو اسے مار کر چیک پوسٹ قالندیا پر چھوڑگئے۔ اس کے ماتھے اور سینے پر گولی لگی ہوئی تھی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ بھاگ رہاتھا۔ اسرائیل کی سیکورٹی کا تقاضا تھا کہ اسے گولی ماری جائے۔

”چیک پوسٹ قالندیا البریا رملا کے مقام پر ہے یہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بنی ہوئی بہت ساری چیک پوسٹوں میں سے ایک ہے۔ یہ چیک پوسٹ دراصل فلسطینیوں کے اجتماعی ذلت کی گزرگاہیں ہیں جہاں روزانہ ہزاروں فلسطینیوں کو بے عزت کیا جاتا ہے، ان کی حمیت کو دھتکارا جاتا ہے اور احمد جیسے انسانوں کی لاشوں کوپھینک دیاجاتا ہے۔“

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی پھر دھیرے سے بولی ”یہ پیغام تھا احمد کے بھائیوں، بہنوں اور ان فلسطینیوں کے لئے جو اب آزادی کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں صحیح یا غلط۔ یہ کرکے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں پر قابو پالیں گے۔ وہ قابو توشاید پالیں مگر دل کے اندر جو نفرت کے پہاڑ بن رہے ہیں اونچے سے اونچے ہی ہوتے جارہے ہیں ان پر تو قابو نہیں پایا جاسکتا ہے۔“

وہ ہنس دی تھی عجیب سی ہنسی۔ ”دوسری جنگ عظیم میں جب نازیوں نے ڈنمارک پر قبضہ کرلیا تو ڈینش لوگوں نے شہری تنظیمیں بنا کر پچانوے فیصد سے زیادہ ڈنمارک کے یہودیوں کو گیس چیمبر، تشدداور ظلم سے بچایا تھا۔ ان کا جینوسائیڈ نہیں ہونے دیا، انہیں دھواں بن کر فضا میں بکھرنے نہیں دیا۔ یہودیوں کو ہم لوگوں نے ایسے ہی یاد رکھا۔ ذہین لوگ، جن کی نسل کشی کی کوشش کی گئی۔ جن کا جینوسائیڈ کیا گیا، جنہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ذہین لوگ، پڑھنے لکھنے والے، مگر وہ تاثراب ختم ہو رہا ہے۔“

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی اس کی نیلی نیلی پتھر جیسی آنکھوں سے آنسو پگھل کر اس کے سرخ وسفید گالوں پر پھسل رہے تھے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑلیا۔ وہ تھوڑی دیر رُک کر دوبارہ سے آہستہ آہستہ بولی۔ ”اب ہم یورپین کو یہ یاد نہیں ہے۔ صرف وہ بچہ یاد ہے جس کے ہاتھ میں پتھر ہے اور جسے اسرائیلی سپاہی گولی مار رہے ہیں۔ وہ بچی یاد ہے جس کے گھر پر بمباری کرکے اسرائیلیوں نے اس کا سر تن سے جدا کردیا ہے۔ وہ ماں یاد ہے جس کے بچوں کو یہودیوں نے ماردیا ہے۔“

یورپ سالوں سے جرمنوں کے جرم کے بوجھ تلے اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے ان کے ظلم و جبر کی حمایت کی ہے۔ ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو بھی برداشت کیا ہے اسی یورپ نے یہودیوں کو بچایا تھا۔ وہی یورپ فلسطین میں آزادی کا سورج نکلتے ہوئے دیکھے گا اور وہی یورپین فلسطینیوں کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔ ”میں سوچ رہا تھا کہ کعبہ کے سوداگر اور مسجد نبوی کے تاجرتو کچھ نہیں کرسکے کار یورپ ہی فلسطینیوں کوصہیونیت سے چھٹکارا دلائے گا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4