کلثوم نواز چوک اور سیاسی رہنماؤں کے تبادلے


وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن نے گلگت شہر کے تین شاہراہوں کے نام تبدیل کردیے ہیں۔ ان شاہراہوں میں نوید شہید روڈ ذوالفقار آباد سے آر سی سی پل کے آئی یو تک کو شہید راشد کریم بیگ، ذوالفقار آباد پل سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی جانب چوک کو پروفیسر ظفر شاکر مرحوم جبکہ پبلک چوک کو بیگم کلثوم نواز مرحومہ کے نام سے منسوب کردیا ہے۔ شہید راشد کریم بیگ کا تعلق ہنزہ سے ہے اور چند ماہ قبل پاک فوج کی جانب سے جام شہادت نوش کرگئے، پروفیسر ظفر شاکر ہردلعزیز شخصیت اور بے انتہا صفات کے حامل شخصیت تھے، پروفیسر ظفر شاکر بھی چند ماہ قبل ایک موزی مرض سے لڑتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔

بیگم کلثوم نواز کی ملکی سطح پر جمہوریت کی بحالی کے لئے بالخصوص مسلم لیگ ن کے لئے بڑی خدمات تھیں۔ بیگم کلثوم نواز بھی گزشتہ سال دیارغیر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملی تھیں۔ اللہ تمام مرحومین کے درجات بلند کریں۔ درج بالا تینوں اسماء میں بیگم کلثوم نواز پر سخت تنقید ہوئی ہے۔ چوک چوراہوں کو کسی کے نام سے منسوب کرنے سے قبل اس بات کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے کہ اس نام کی اس علاقے سے نسبت ہونی چاہیے۔ اس سے قبل صوبائی حکومت گلگت بلتستان نے کونوداس کا نام ’اقبال ٹاؤن‘ رکھ دیا تھا اس وقت بھی یہی سوال اٹھا تھا کہ علامہ اقبال کی کونوداس علاقے کے ساتھ کسی بھی قسم کی نسبت سے نہیں ہے تو کیوں منسوب کیا گیا ہے۔

درج بالا تینوں نسبتوں میں سوائے پروفیسر ظفر شاکر کے علاوہ کسی نام کا اس علاقے شاہراہ یا چوراہے سے نسبت موجود نہیں ہے، شہید راشد کریم بیگ اور بیگم کلثوم نوازدونوں کی خدمات اپنی جگہ پر لیکن ان دونوں کی مقامی سطح پر کوئی مقبولیت ہے اور نہ ہی سڑکوں کو ان کے نام سے منسوب کرنا مناسب ہے۔ ادھر سینئر کالم نگار علی احمد جان صاحب نے ایک اور اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ چوک چوراہوں کو تبدیل کرنے کا کام محکمہ بلدیات اور مقامی حکومت کا ہے جبکہ گلگت بلتستان میں گزشتہ 12 سالوں سے اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس سے قبل کی حکومتوں نے بھی اسی طریقے سے اپنے من پسند علاقوں، چوک چوراہوں اور شاہراہوں کو اپنے قائدین کے نام سے منسوب کردیا ہے جس کا تسلسل موجودہ حکومت کررہی ہے۔

گلگت بلتستان میں تحریک انصاف نے دیگر جماعتوں سے کھلاڑی کھینچنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور سیاسی موسم بتارہا ہے کہ آئندہ کچھ ماہ تک مزید کمزور جڑوں کے حامل رہنما اچھل اچھل کر تحریک انصاف میں شامل ہوں گے یا پھر پت جھڑ کے موسم میں پتے گرِ گرِ کر تحریک انصاف کی جھولی میں آگریں گے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی دونوں کو اس بات کی فکر ہے کہ کس طریقے سے اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کو اپنی پارٹی سے جوڑے رکھیں۔ دریائے گلگت کے بہتے پانی کے ساتھ ہی اس بات کا بھی شور ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کے متعدد ممبران اسمبلی بشمول وزراء نے بھی تحریک انصاف سے اپنے معاملات طے کرلئے ہیں اور وقت آنے پر وہ اپنے ’رنگ‘ میں آجائیں گے۔

گزشتہ ماہ تک یہ خیال پختہ تھا کہ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کو نقصان پہنچائے گی کیونکہ مسلم لیگ ن کا تنظیمی ڈھانچہ اس وقت سخت متاثر ہے۔ مسلم لیگ ن کا صوبائی صدر وزیراعلیٰ ہونے کی وجہ سے اپنی پارٹی کو وقت بھی نہیں دے پاتے ہیں اور چار سالوں تک بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کی وجہ سے کارکنوں کی توقعات اور امیدیں بھی کم ہوتی جارہی ہیں۔ یہ اثر اپنی جگہ برقرار ہے لیکن ادھر پیپلزپارٹی بھی انتہائی مشکل حالت میں آکر کھڑی ہوگئی ہے۔

پیپلزپارٹی نے جس تنظیمی ڈھانچے سے نیا سفر شروع کیا تھا وہ نہ صرف پارٹی کے لئے حوصلہ افزا رہا ہے بلکہ ایک وقت میں مسلم لیگ ن کے متبادل میں پیپلزپارٹی ہی نظر آرہی ہے جو ابھی مبہم ہوگیا ہے۔ اس دورانیے میں پیپلزپارٹی کے ایک ضلعی صدر نے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے ہی استعفیٰ دے کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی ہے جبکہ اب تک دو صدور ایسے ہیں جنہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے تاہم رکنیت برقرار ہے، دونوں صدور ضلع غذر کے ہیں۔

پیپلزپارٹی ضلع غذر کے صدر ظفر محمد شادم خیل سے قبل سابق پارلیمانی سیکریٹری محمد ایوب نے بھی عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ ظفر محمد شادم خیل تیزی سے شہرت پارہے ہیں اور انتخابی سیاست میں اپنے اہداف بھی متعین کررکھے ہیں۔ گو کہ ابھی تک ظفر محمد شادم خیل نے پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ نہیں دیا ہے تاہم افواہیں یہی گردش کررہی ہیں کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہوجائیں گے، گزشتہ چار برسوں میں تحریک انصاف ظفر شادم خیل کی تیسری پارٹی بن رہی ہے۔

پیپلزپارٹی کا ضلع غذر سے پرانا تعلق ہے۔ ضلع غذر کے بزرگ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ کسی اور قائد کا نام لینا گوارا نہیں کرتے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کی غذر میں بھاگ دوڑ مذہبی شخصیت پیر کرم علی شاہ کے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے بھی عقیدت زیادہ تھی لیکن نوجوان نسل ان افکار کی حامل نہیں رہی ہے۔ اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی کو انتہائی متحرک رہنما کی ضرورت تھی جو غذر میں پارٹی علم تھامے رکھتا اور ظفر محمد شادم خیل میں وہ خوبی موجود تھی، ظفر محمد شادم خیل کے استعفیٰ نے پیپلزپارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کا اظہار صوبائی صدر نے بھی کردیا ہے۔

گرتی وکٹوں اور شمولیتوں کو ایک طرف رکھا جائے تو یہ بات بڑی دلچسپ بھی ہے کہ 22 سالہ جدوجہد کی دعویدار تحریک انصاف کے پاس ’اپنا‘ کچھ بھی نہیں ہے۔ چار صوبوں کا معاملہ یقیناً الگ ہوگا لیکن گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کے چیئرمین ہمیشہ آتے جاتے رہے ہیں کیا مجال ہے کہ ایک بھی ایسا رہنما نظر آئے جو 22 منفی 4 سالہ جدوجہد سے متاثر ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی لوٹا گردی کا استعمال کیا جارہا ہے، اس سے قبل ایسی لوٹا گردی ’ق لیگ‘ کی حکومت میں ہی نظر آسکی تھی۔

تحریک انصاف کے صوبائی صدر کے خلاف اگر ایک بیان دے کر یہ سمجھا جائے کہ انہیں شکست دیں گے تو یہ خام خیالی ہوگی۔ تحریک انصاف اپنی تلوار نیام سے نکال کر دونوں پارٹیوں کے پیچھے لگی ہوئی ہے جس کا مقصد لوٹے اٹھانا یا وکٹیں گرانا ہے۔ تحریک انصاف ابھی تک حتمی طور پر فیصلہ نہیں کرپارہی ہے کہ وہ فائنل کس کے ساتھ کھیلیں گے۔ حتمی مرحلے میں داخل ہونے کے لئے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں کو اپنی جڑوں پر توجہ دینی ہوگی۔ پیپلزپارٹی کو جس انداز سے دیوار سے لگایا جارہا ہے اس کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امجد ایڈوکیٹ کو 2016 والی کارکردگی دوبارہ دکھانی ہوگی۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ مہدی شاہ نے ایسی کوئی مثال نہیں چھوڑی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).