ہرا رنگ اور اقلیتیں


”مذہبی اقلیت“ ایک اصطلاح ہے، یہ کسی ملک، ریاست، صوبہ یا علاقہ وغیرہ میں کل آبادی میں جس مذہب کے پیروکاروں کی تعداد کم ہو ان مذاہب کے لیے اقلیت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی بڑی اقلتیں کرسچین، ہندو، سکھ اور پارسیوں پر مشتمل ہے۔ ہمارے ہاں کچھ سالوں سے اقلیتوں کے بارے میں عدم برداشت کے رویے میں شدت آئی ہے اور کسی نے بھی اس کے تدارک کے لیے اپنا کردار اس طرح نہیں نبھایا جس طرح نبھایا جانا چاہیے تھا۔

پاکستان میں مسیحی تمام اقلیتوں سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ تقریباً 25 لاکھ مسیحی پاکستان میں آباد ہیں جو کل آبادی کا ساڑھے ایک فیصد بنتا ہے۔ مسیحیوں کی تقریباً آدھی آبادی رومن کیتھولک اور آدھی پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ پاکستان کے 90 فیصد سے زائد مسیحی صوبہ پنجاب میں رہائش پذیر ہیں اور صوبے کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ ان میں سے 6 فیصد دیہات میں رہتے ہیں اور بہت غریب ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں بھی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کا ذکر اس طرح نہیں ہورہا جیسے ہونا چاہیے۔ اکثر جو کیس رپوٹ بھی کیے جاتے ہیں ان میں سے کسی بھی اقلیتی نمائندے کی نہ تو آواز یا رائے شامل ہوتی ہے اور نہ اقلیتوں کے بارے میں اس سے ویسے بات کی جاتی ہے۔

اوراگر انہیں بات کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تو اس وقت خواتین، مذہبی اقلیتوں اور مختلف مکاتب فکر کو پر تشدد حملوں، تعصب اورروزمرہ زندگی میں جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت مناسب حفاظت مہیا کرنے اور ذمہ داران کو قصوروار ٹھہرانے میں بھی ناکام ہے۔ خواتین، مذہبی اقلیتیں اور بچیاں اس وقت بہت ہی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔

کم از کم سترہ لوگ پاکستان میں مذہبی بے حرمتی کے قانون کے تحت قصور وار ٹھہرانے کے بعد پھانسی کے منتظر ہیں اور سینکڑوں ایسے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مذہبی بے حرمتی کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کی اکثریت کاتعلق مذہبی اقلیتوں سے ہے۔ پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی پریشان کن حد تک عام ہے۔ جس میں صرف لاہور، پنجاب میں 2018 ء کے پہلے چھ ماہ میں 141 واقعات رپورٹ ہوئے۔ کم از کم 77 لڑکیوں اور 79 لڑکوں سے جنسی زیادتی کی گئی یا ان پر جنسی حملے ہوئے۔ یہ تعداد پولیس رپوٹ کے مطابق ہے لیکن ایک بھی ملزم کو سزا نہیں ہوئی۔

کرسچینز کے علاوہ پاکستان میں مقیم ایک اور بڑی اقلیت ہندو برادری ہے جس کا زیادہ تر حصہ جنوبی صوبہ سندھ میں آباد ہے، تاہم جبری تبدیلی مذہب، معاشرتی نفرت اور عدم تحفظ جیسے مسائل کی وجہ سے پاکستان میں بسنے والے ہندو شدید پریشانیوں کا شکار ہیں۔ اکثر عالمی برادری بھی اقلیتوں کے لئے گرجا گھروں او دیگر عبادت گاہوں پر بھی ہائی پروفائل حملوں اور بم دھماکوں کی آوازیں سننے میں ناکام رہتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مذہبی جنونیت اور اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اسی آڑ میں ایک اور منظم اور وحشانیہ عمل بھی جاری ہے۔

صوبہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کی اغوا، عصمت دری اور جبری طور پر ان کی نو عمری میں زبردستی تبدیلی، پنجاب میں کرسچین سکھ اور ہندو لڑکیوں حتی کی شادی شدہ اورغیر شادی شدہ عورتوں کے اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کے واقعات عام ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے لئے روز مرہ کی زندگی ایک وحشیانہ اور خوفناک حقیقت بنتی جارہی ہے رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں، عالمی انسانی حقوق دفاع نے اپنی 2019 کی رپورٹ میں پاکستان میں جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے جاری واقعات پر بھی توجہ دلائی ہے۔ یہ رجحان کوئی اشارہ ہے تو، پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے مستقبل کی پیشن گوئی کرنا مشکل نہیں ہے۔ سیاستدانوں اور مختلف لوگوں کی جانب سے بارہا تردید، بگاڑ اور ان کے خلاف ورزیوں کے باوجود، پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر جاری ظلم جاری ہے وہ کہتے ہیں نا

اُٹھا رہا ہے جو فتنے مری زمینوں میں
وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں

اور مجھے اب یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں حقیقی معنوں میں جمہوریت نہیں ہے کیونکہ جمہوریت میں تو مذہبی اقلیت کا تصور ہی نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).