خودکش اور شارٹ کٹ


عمومی وتیرہ ہمارا یہ ہے کہ جب برسرِ محفل سخن آرا ہوتے ہیں تو خود کو معصوم عن الخطا کی مسند پر بٹھا کر دوسروں پر نکتہ چینی اور ان کی عیب جوئی کیا کرتے ہیں۔ ساری خرابیاں وہاں سے شروع ہوتی ہیں جہاں ہمارا جسمانی و فکری حدود اربعہ ختم ہوتا ہے۔ یہ دائرہ ابنِ خلدون کے نظریہ عصبیت کے تحت پھیلتاچلاجاتا ہے۔ شخص، خاندان، گروہ، ہم پیشہ، برادری سے لے کر ہم زبان حلقوں تک۔ ہمیشہ اپنی وابستگی والے حلقے کو حق بہ جانب مان کر دوسرے پر تنقید ہواکرتی ہے۔

ہر قومی برائی کے ذمہ دارحکومت اور سرکار سے وابستہ ادارے و افراد۔ جبکہ حقیقت یہی کہ اس حمام میں ہم سب کے سب بیس کروڑ بے پیرہن ہیں اور ایک ہی تھال کے چٹے بٹے۔ راستوں سے لے کر زندگی کے امور ہائے روز مرہ تک ہم سب شارٹ کٹ کے متلاشی رہتے ہیں۔ اک ہجوم ہے مئے تن آسانی سے مدہوش کہ جو اِک دوجے کو روندتے ہوئے، آگے ہی آگے جانا چاہتا ہے۔ کوئی کام نہیں، کوئی ایمرجنسی نہیں مگر ہر ایک کو جلدی ہے۔ دوسروں سے ٹکراتا، شانے چھلتا سڑک پر چلتا ہے کہ گویا گھر کی نسائی نفری میں کوئی کمی آگئی ہواور یہ تلاش میں جاتا ہو مگر پھر کچھ ہی فاصلے پر بندر کا تماشا دیکھتا ہوا ملے گا۔ کیا سیاست دان، کیا عام شہری، سب شارٹ کٹ کے رسیا۔ سیدھے راستے کا ذرا سا چکر ہم کوبرداشت وگوارا نہیں۔

دفتر سے گھر کے راستے میں مجھے وہ طویل فلائی اوور پڑتاہے جو پل موج دریا سے اڑان بھر کے کچہری چوک کے اوپر سے گزرتا، آٹھ نمبر چونگی والے سہہ راستے پر دو شاخہ ہوجاتا ہے۔ دائیں طرف کو مین فلائی اوور نو نمبر چونگی کی طرف مڑتا ہوا چلاجاتا ہے جبکہ سیدھا ایک تنگ سلپ وے پیر خورشید کالونی کی طرف اترجاتا ہے۔ یہ سلپ وے گلگشت وغیرہ کو جانے والوں کے لئے ہے اور بڑا ہی تنگ۔ زیادہ سے زیادہ چوڑائی دس بارہ فٹ ہوگی۔ یہ ون وے ہے صرف گاڑیوں کے اترنے کے لئے۔

پھر طویل فلائی اوور پر گاڑیاں خاصی رفتار پکڑ چکی ہوتی ہیں۔ اسی رفتار کو برقرار رکھتے ہوئے وہ پیر خورشید کالونی کے اس سلپ وے سے اترا کرتی ہیں۔ ایسے میں اس ون وے تنگ سلپ وے پر مخالف سمت سے چڑھنا سیدھا سیدھا خودکشی کے مترادف ہے۔ مگر آفرین ہے اس دلیر قوم کی بہادری پر کہ موٹر سائیکلوں والے حضرات اکثر و بیشتراترنے کے لئے بنائے گئے اس سلپ وے پر مخالف سمت سے چڑھ رہے ہوتے ہیں۔ خود کش صرف وہی نہیں جو بارودی مواد والی جیکٹیں پہنے پھرتے ہیں۔ اس طرح کے خود کش بھی یہ ملک خود کفالت کی حد تک اپنی سرزمین پر رکھتا ہے۔

ہفتہ بھر ہوتا ہے، میں دفتر سے واپسی پر پل موج دریا سے فلائی اوور پرجو چڑھا ہوں تو اس دو شاخے تک پہنچتے پہنچتے میری گاڑی کی رفتار والی سوئی اسّی اور نوّے کے درمیان تھی۔ دو شاخہ خالی تھا۔ اسی رفتار سے جو میں نے سلپ وے پر گاڑی ڈالی ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب جنہوں نے موٹر سائیکل پر اپنے پیچھے ایک برقع پوش خاتون اوردو بچے بٹھا رکھے ہیں، قریب پچیس گز کے فاصلے پر، ڈھلان کے عین بیچ میں موٹرسائیکل واپس موڑ نے کی مشق فرمارہے ہیں۔

موٹر سائیکل آڑ ا ترچھا ہورہا ہے اور یہ تنگ سلپ وے بالکل ہی مسدود۔ بڑی مشکل سے بریک لگائی، گاڑی عین ان صاحب کے سر پر جا کے رُکی۔ انہیں دائیں بائیں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ موٹرسائیکل موڑ، اب و ہ واپس اوپر چڑھنے کو پر تول رہے ہیں کہ میں گاڑی سے باہر نکل آیا۔ باریش شخص جنہوں نے لال اور سفید ڈبیوں والا رومال مفلر کی طرح لپیٹ رکھا ہے۔ ”تمہیں اپنی جان کی پرواہ نہیں تو ان معصوم بچوں اور خاتون کا ہی خیال کرو۔ کچھ خبر بھی ہے، میں نے کتنی مشکل سے گاڑی کنٹرول کی ہے۔ یہ اترنے کا راستہ ہے، اوپر چڑھنے کا نہیں۔“ اترتے ہی میں نے اس کی خبر لینا شرو ع کی۔

”او بھائی! غلط آگئے ہیں، ہم نے نو نمبر چونگی کی طرف جانا تھا، اس لئے موڑ رہا ہوں۔“ اس کے لہجے میں کوئی ندامت، کوئی شرمندگی نہ تھی۔ ”پچیس گز کا فاصلہ تم کر آئے ہو، اتنا ہی آگے ہے۔ اس سے اتر کر فلائی اوور کے نیچے سے کشادہ سڑک بنی ہے،وہاں سے چلے جاؤ۔ پتہ ہے گاڑیاں کس رفتار سے آتی ہیں، کوئی ٹکرا گیا تو؟ “ مجھے اس کی توجیہہ پر مزید غصہ آگیا۔ مگر صاحب توبہ کیجئے جو وہ واپس مڑنے کے لئے تیار ہو۔ میں نے بھی ضد بنا لی۔

اس کا راستہ تو میری گاڑی کی وجہ سے بلاک تھا ہی۔ میں نے کہا ”واپس مڑو۔“ اب میرے پیچھے گاڑیاں رکنے لگی تھیں۔ دوسری طرف سے موٹر سائیکلوں کا راستہ تو تھا، وہ گزر رہے تھے۔ تماشا دیکھنے کو وہاں موٹر سائیکلوں والے بھی رکنے لگے۔ جب میں نے قانون، اخلاقیات، سماجیات پر ہلکا سا لیکچر جھاڑا اور اسے بتایا کہ تم اپنی اور اپنے بچوں کی جان لینے کے درپے ہو تو وہ واپس مڑنے کو نیم رضامند لگا۔ پھر پیچھے سے گاڑیوں کے ہارنوں کی آوازیں اس پر دباؤ کا باعث بنیں۔

اسی دوران دو تین موٹرسائیکلوں والے اور ایک صاحب جو پیچھے کی گاڑی سے اتر کر آئے تھے مجھ پر چڑھ دوڑے۔ ”وہ اگر اپنی جان کا دشمن ہے تو تم مامے لگتے ہو۔ تمہاری گاڑی کا راستہ ہے نا، اپنی گاڑی نکالو اور راستہ ناپو۔ وہ مڑے یا مرے تمہیں اس سے کیا؟ “ میں نے قانون کی بات کی تو اور کوسنے سننے کو ملے کہ کون ہے جو اس ملک میں قانون کی پابندی کرتا ہے۔ تم خوامخواہ کی تبلیغ کرتے پھرتے ہو۔

جب توپوں کا رخ میری طرف ہوگیا تو وہ باریش صاحب اور شیر ہوگئے۔ وہ جو واپسی کے لئے موٹر سائیکل کا ہینڈل گھماچکے تھے، پھر سے سیدھا کر لیا گویا بزبانِ خامشی کہتے ہوں ”جاؤں گا اوپر کر لو جو کرنا ہے“۔ سب راہ گیر اس کے ساتھ تھے اور میرے مخالف۔ دباؤ بڑھا تو میں نے اندر بیٹھ کر سٹیئرنگ گھمایا اور اس کے دائیں طرف سے ہو کر اپنی راہ ہوا۔ دروازے کے ساتھ لگے پیچھے کامنظر دکھانے والے آئینے سے میں نے دیکھا کہ میرے پیچھے لگے رش میں وہ دھیرے دھیرے راستہ بناتا اوپر چڑھا جارہا ہے اور گاڑیوں، موٹر سائیکلوں والے بڑے پروٹوکول سے اسے راستہ دے رہے ہیں۔ میں گھر تک یہی سوچتا آیا کہ جہاں قانون ضابطے کی بات کرنے پر ڈانٹ پلائی جائے وہاں قانون پر عمل در آمد کی یہی حالت ہونی چاہیے جو اس اسلامی جمہوری ملک میں ہے اور جہاں کسی دوسرے کی جان سے ہم دردی کرنے پر یہ سننے کو ملے کہ ”تم مامے لگتے ہو“ وہاں انسانی جان کی ارزانی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

وہ دن اور آج کا دن میں اس دوشاخے پر گاڑی آہستہ کرلیتا ہوں۔ روز نہیں تو دوسرے دن کوئی نہ کوئی موٹر سائیکل یا سائیکل والا مجھے اس تنگ سلپ وے سے اوپر چڑھتا ہوا نظر بھی آجاتا ہے۔ میں چپ کر کے اور کان لپیٹ کے اس کے پہلو سے گزر جاتا ہوں۔ گاڑی کی رفتار کم کرنے اور کان لپیٹ کر گزرجانے کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ مجھے ون وے کی خلاف ورزی کرنے والوں کی جان کی پروا ہے۔ اس روز سبق ملنے کے بعد میں تو یہ اہتمام اس لئے کرتا ہوں کہ کوئی ٹکرا گیا تو خواہ مخواہ تھانے کچہری کے چکر میں وقت اور رشوت دینے کی صورت میں پیسے کا ضیاع ہوگا۔ شارٹ کٹ کی متلاشی اس قوم کا کوئی فرد جب محض پچیس گز کا سفر بچانے کے لئے اپنی جان پر کھیل جاتا ہے تو میں نے بھی شارٹ کٹ ڈھونڈ لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).