اٹھتے ہیں ”حجاب“ آخر


کارخانہء قدرت میں ہرحادثے اور ہر سانحے میں دیدہء بینا رکھنے والوں کے لیے ایک سبق پوشیدہ ہوا کرتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بچپن میں جب سکول کے نصاب میں کہانیاں شامل کی جاتی تھیں تو ہر کہانی کے اختتام پر ”مورال آف دی سٹوری“ دیا جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں ہر سُو ایسی کہانیاں بکھری پڑی ہیں جن سے ہم سبق حاصل کرنے لگیں تو ہمارے اکثر مسائل حل ہو جائیں۔ جیسے کہ آج کل میڈیا پر ہر جانب ریپ اور قتل کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔

روازنہ میڈیا شوز میں تجزیہ کار اس مسئلے کے سدّباب کے لیے مباحث میں مشغول، نت نئی تجاویز پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ایک اہم نکتے کی جانب کوئی خاطر خواہ توجّہ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ یہ کہ ایسے معاملات میں شکار بننے والی خواتین، بچوں اور بچیوں کی جانب سے احتیاتی تدابیر کا نہ کیا جانا ایسے سانحات کی اصل وجہ ہے۔ آپ کو ان سب میں واقعات کا شکار بننے والوں میں کیا قدرِ مشترک نظر آتی ہے؟

اس کا جواب ہے سراسر بے حجابی۔ نہ تن عبائے میں پوشیدہ ہے اور نہ چہرے پر حجاب کا تکلّف کیا گیا ہے۔ تو کیا جب آپ حجاب اور عبائے میں ملبوس ہوئے بغیر عوام کے درمیان یوں بے حجابانہ پھریں گی تو ان کے جذبات تو برفرواختہ ہوں گے ہی۔ اوراس جذباتی ہیجان کا نتیجہ ایسے حادثات کی صورت میں ہی سامنے آئے گا۔

اس لیے اہل علم و دانش خواتین اور بچیوں کو حجاب و عبایہ کے استعمال کی سختی سے پابندی کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ مگر مغربی کلچر سے مرعوب ایک اخلاق باختہ گروہ کو یہ نصیحت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ یہ بزعمِ خود ترقی پسندی اور آزاد خیالی کے داعی، اس احتیاتی تدبیر کو جان و عزّت کی محافظ سمجھنے کی بجائے قدامت پرستی اور مذہبی شدّت پسندی کی علامت جان کر اس کی مخالفت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان بیوقوفوں نے چار کتابیں کیا پڑھ لی ہیں کہ خود کو عقلِ کُل سمجھنے لگے ہیں۔

یہ لوگ صرف مخالفت برائے مخالفت کے قائل ہیں۔ مغربی قوموں کی نقّالی کرتے نہیں تھکتے مگر اپنے خِطّے کی تاریخ، ثقافت اور تہذیبی روایات سے یکسر نابلد ہیں۔ ان لنڈے کے لبرلز کو تو اس بات کی بھی خبر نہیں کہ عبایہ و حجاب ازمنہء قدیم ہی سے اس قطعہء ارض کے باشندوں کی ثقافت کا جزوِ لازم رہا ہے۔ عظیم مسلمان سائینسدان ابو الریحان البیرونی نے تقریباً ایک ہزار سال قبل اس خِطے کا سفر کیا تھا تھا اور اس سفر کا حال اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ”کتاب الہند“ میں رقم کیا تھا۔

یہ کتاب ہزار سال قبل کے ہندوستان کے باشندوں کے رہن سہن رسوم و رواج کی ایک جھلک فراہم کرتی ہے۔ اس کتاب میں البیرونی لکھتا ہے کہ میں نے ہند کے بیشتر علاقوں میں یہ رواج دیکھا ہے کہ عورتیں اور نوجوان دوشیزائیں خود کو ایک کھلے لبادے میں لپیٹ کر رکھتی ہیں جس میں سے صرف ان کے ہاتھوں کی انگلیاں نظر آتی ہیں اور وہ ایک کپڑا اپنے چہرے اور سر کے گرد اس طرح لپیٹ کر رکھتی ہیں کہ صرف ایک درز بمقامِ چشم صرف راستہ دیکھنے کا کام دیتی ہے۔

اسی طرح انگریزوں کے برِّصغیر پر قبضے سے قبل عبایہ اور حجاب میں ملبوس خواتین کھیت کھلیانوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی عام دیکھی جاتی تھیں۔ اس زمانے میں چھوٹی معصوم بچیاں، نوجوان دوشیزائیں اور شادی شدہ خواتین، سب ہی کی عزّت محفوظ تھی۔ نہ ہی ریپ ہوا کرتے تھے اور نہ پھندے سے لٹکتی لاشیں ملا کرتی تھیں۔ پھر ہم انگریزوں کی غلامی میں ایسے آئے کہ انہوں نے ہمیں احساسِ کمتری کا شکار بنا دیا۔ ہم سے ہماری ثقافت چھین لی گئی۔

ہم خوئے غلامی میں پختہ تر ہوتے چلے گئے۔ جبھی تو اکبر الہٰ آبادی پکار اٹھے کہ ”پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟ کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا“۔ اور مردوں کی اس بے عقلی اور ڈھیل کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری بچیاں تو کیا بچے بھی محفوظ نہیں۔ دردِ دل رکھنے والوں نے کس کس طرح سے یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ کبھی لالی پاپ کی مثال دی، کبھی گاڑی کی مثال دی۔ مگر اب بھی ہمارے معاشرے کی اکثریت اسی فحاشی اور بے پردگی کی وباء میں مبتلا نظر آتی ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں ورنہ ایسے واقعات مستقبل میں بھی پیش آتے رہیں گے۔ نہ صرف قوم کی بہو بیٹیوں کے لیے حجاب اور عبایہ لازم قرار دیا جانا چاہیے بلکہ قربِ قیامت کے اس زمانے میں نو عمر لڑکوں پر بھی حجاب اور عبائے کے بغیر نا محرموں کے سامنے آنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ بلکہ ہماری تجویز تو یہ ہے کہ دیہاتوں میں باربرداری کے جانوروں کی ماداؤں کے لیے بھی حجاب اور عبایہ لازم قرار دیا جانا چاہیے تاکہ ہمارے مردوں کی مردانگی بے قابو نہ ہونے پائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).