نمرتا چاندانی کی پراسرار موت: بہت سے سوالوں کا جواب نہیں مل رہا


آصفہ ڈینٹل کالج لاڑکانہ کی طالبہ نمرتا کی پراسرار موت سے اس کے خاندان سمیت پاکستان بھر کے شہری دکھ میں آ گئے ہیں۔ دوسری طرف تفتیشی اداروں کو بھی اس معاملے کی گتھیاں سلجھانے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔

نمرتا بی ڈی ایس کے فائنل اِیئر کی طالبہ، نہایت ملنسار اور خوش رہنے والی لڑکی تھی لیکن وہ پچھلے کچھ ماہ سے کافی پریشان تھی۔ اس پریشانی کا تذکرہ نمرتا نے کالج کے ایک ہردلعزیز ہندو پروفیسر سے بھی کیا۔ پروفیسر نے نمرتا کو مشورہ دیا کہ وہ جِم جائے، ورزش کرے اور یوگا کی مشقیں کرے جس سے اس کے ڈپریشن میں کچھ کمی ہو سکتی ہے۔

نمرتا کی دوستی اسی کالج کے دو لڑکوں سے تھی جس میں سے ایک طالب علم مہران ابڑو نمرتا کے کافی قریب تھا۔ نمرتا کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا جبکہ مہران ابڑو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ ذہین اور ملنسار نمرتا کا اکثر و بیشتر مہران ابڑو کے گھر پر بھی آنا جانا تھا اور بعض اوقات تو تین تین، چار چار دن قیام بھی معمول تھا۔ مہران ابڑو نمرتا کا اے ٹی ایم کارڈ تک استعمال کرتا رہا ہے۔ تفتیشی اداروں کا کہنا ہے کہ نمرتا اپنے دوست مہران ابڑو سے شادی کی خواہش مند تھی اور دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات بھی تھے لیکن چند ماہ پہلے مہران ابڑو نے شادی سے انکار کر دیا تھا اور یہ جواز پیش کیا تھا کہ دونوں کے بیچ اسٹیٹس کا ایک بہت بڑا فرق ہے۔ مذہب تبدیل کرنا بھی ممکن نہیں۔

مہران ابڑو کے اس انکار کے بعد سے ہی نمرتا شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوگئی تھی۔ امرتا کے ہاسٹل میں اس کےساتھ دو روم میٹس بھی رہتی تھیں۔ واقعہ کی رات وہ تقریبا بارہ سے ایک کے درمیان سو گئی تھیں۔ صبح چھ بجے کے قریب دونوں سہیلیاں مندر جانے کے بعد اپنی کلاس میں چلی گئیں۔ دوپہر دو بجے جب دونوں لڑکیاں واپس کمرے میں آئیں تو کمرہ اندر سے لاک تھا۔ بار بار دستک کے باوجود دروازہ نہ کھلنے پر اندر جھانکا تو لائٹ آن تھی۔ دونوں پریشان ہوئیں اور وارڈن کی مدد سے دروازے کا لاک توڑا گیا تو اندر کا منظر دل ہلا دینے والا تھا۔ نمرتا دونوں چارپائیوں کے بیچ پڑی تھی اور اس کے گلے میں دوپٹہ جکڑا ہوا تھا۔ دونوں سہیلیوں نے گلے سے دوپٹہ کو آزاد کرنےکی بہت کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔

تفتیشی ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر یہ قتل تھا تو دروازہ اندر سے کس طرح بند تھا؟ قاتل نمرتا کو قتل کرنے کے بعد باہر کیسے گیا؟ تفتیشی حلقوں کے مطابق جس کمرے سے نمرتا کی لاش ملی اس کمرے کی چھت کی اونچائی تقریبا 13 سے 14 فٹ تھی جبکہ نمرتا کا قد تقریبا پانچ فٹ کے قریب تھا۔ اگر اس نے اپنے بیڈ یا کرسی سے اوپر خود کو لٹکانے کی کوشش کی تو پنکھے تک اس کا دوپٹہ کیسے پہنچا؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنے دوپٹے کو اونچا اچھال کر پنکھے کے اوپر سے گزارا ہو گا اور پھر اپنے گلے کے گرد لپیٹنے میں کامیاب ہو گئی اور کمرے میں پڑی کرسی کو دھکا دیا اور جھول گئی۔

نمرتا کے بھائی کے مطابق اگر اس نے خودکشی کی ہے تو پنکھا سیدھا کیسے رہ گیا؟ تفتیشی اداروں کے مطابق نمرتا کا وزن تقریبا پچاس کلو کے لگ بھگ تھا۔ 50 کلوکےوزن سے پنکھے کا ایک پر اوپری سطح سےکچھ متاثر ہوا ہے جوغور سے دیکھنے پر پتا چلتا ہے۔ البتہ نمرتا نےجب کرسی کو دھکا دیا ہو گا تو دوپٹہ پھسل کر پروں کے درمیان آ گیا اور وہ نیچے لٹکی اور گر گئی ہو گی جس سے اس کی آنکھ کے قریب آنے والی چوٹ کے نشان واضح ہیں۔ تمام صورتحال پر مزید تحقیقات جاری ہیں

تفتیشی حلقوں کا محور مہران ابڑو ہے جو نمرتا کی موت کے بعد سے بےحد پریشان ہے۔ مہران ابڑو نے اپنے فون سےدونوں کے درمیان ہونےوالی تمام چیٹ پہلے ہی ضائع کر دی تھیں۔ مہران ابڑو کو پولیس نے حفاطتی تحویل میں لے لیا ہے۔ تفتیش کرنے والے کہتے ہیں کہ نمرتا آئی فون استعمال کرتی تھی۔ جدید ماڈل ہونے کی وجہ سے فون ان لاک کئے جانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ نمرتا کے جسم کے اجزا فرانزک کیلئے بھجوا دیئے گئے ہیں۔ امکان ہےکہ پولیس افسران چند روز میں مزید شواہد اکھٹے کر کے پریس کانفرنس کے ذریعے اب تک ہونے والی تحقیقات سے پردہ اٹھائیں گے۔ بظاہر یہ کیس خودکشی کی طرف جاتا نظر آتا ہے لیکن جرائم کی دنیا میں حتمی شواہد ملنے تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).